نتائج تلاش

  1. م

    غزل - آئینہ دیکھ لو - منیبؔ احمد

    تازہ غزل پیش خدمت ہے۔ معائب و محاسن پر ضرور روشنی ڈالیں۔ بہت شکریہ :) جب تک بجائے اشک کے موتی نہ دیکھ لو کچھ دیر رو کے ہمدمِ دیرینہ دیکھ لو اہرام مصر کے ہوں مقابر ہوں چین کے دل سا کہیں نہ پاؤ گے گنجینہ دیکھ لو سنتے ہی سنتے گزرے ہوؤں کی کہانیاں ہم بھی ہوئے ہیں قصۂ پارینہ دیکھ لو پانی میں عکس...
  2. م

    غزل - کراہتے کیوں ہو؟ - منیبؔ احمد

    چھوٹی سی تازہ غزل۔ رائے دیجیے۔ مراد وجہِ الم ہے کراہتے کیوں ہو؟ جو چاہیے ہی نہیں اُس کو چاہتے کیوں ہو؟ ملاپ قلب کا ہوتا ہے قالبوں کا نہیں فقط بدن کو بدن سے بیاہتے کیوں ہو؟ منیبؔ ہونٹ بہت خشک ہیں لبِ راوی اب ایسے صحرا نما سے نباہتے کیوں ہو؟
  3. م

    غزل - جہان بنتا عدن تو کیسے؟ - منیب احمد

    نئی غزل پیش خدمت ہے۔ خوبیوں خامیوں پر روشنی ڈالیں۔ بہت شکریہ! :) گہن لگائے نہ رنگِ گل کو جمالِ سیمیں بدن تو کیسے؟ وہ سیم تن جب ہو عکس افگن سمن کو دیکھے چمن تو کیسے؟ نہ وہ سجاوٹ نہ جگمگاہٹ نہ تمتماہٹ نہ جھل جھلاہٹ ہمارے یاقوت لب کے آگے جو بولے لعلِ یمن تو کیسے؟ پتا وہ میرا ہی پوچھتا ہے گلی میں...
  4. م

    رباعی | جو اشک بہاتے ہو وہ پی کر دیکھو - منیب احمد

    ایک تازہ رباعی پیش خدمت ہے۔ اپنی رائے دیجئے : جو اشک بہاتے ہو وہ پی کر دیکھو نالاں نہ رہو ہونٹ بھی سی کر دیکھو میں نے کہا مر جاؤں تو ہنس کر بولا مر جانا تو آسان ہے جی کر دیکھو
  5. م

    تعارف صلائے عام ہے یارانِ ’اردوداں‘ کے لئے

    پیارے محفلین اور جید اساتذہ کرام، آداب! میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ تمام دو گروہوں میں منقسم ہیں۔ ایک وہ ہیں جو مجھے جانتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو مجھ سے واقف نہیں۔ وہ جو مجھے جانتے ہیں، یہ بھی جانتے ہیں کہ میں ایک مدت سے اس محفل جاں پرور کا ممبر ہوں اور کبھی کبھی اپنی ایک آدھ غزل سنا کر اور داد سمیٹ...
  6. م

    ساون کے نام - منیب احمد فاتحؔ

    یوں چھائی گھنگور گھٹا ہر سو اندھیرا پھیل گیا قطرہ قطرہ بارش کا ڈرتے ڈرتے کود پڑا بجلی کڑکی دمن دمن کاگا کاگا کانپ اُڑا پیڑوں سے ٹکرائی ہوا پتّا پتّا جھوم پڑا مور لگے پھیلانے پَر جنگل جنگل رنگ بھرا مٹّی کی بھینی خوشبو نے گلیوں میں راج کیا مسکائی پیاسی کھیتی سوکھا کنواں جاگ اُٹھا کالی کالی گھٹاؤں...
  7. م

    غزل - رُخسار ترا مشعلِ سوزاں نظر آئے - منیب احمد فاتحؔ

    تمام محفلین کو سلام! کافی عرصے بعد حاضر ہوا۔ اور ایک تازہ غزل بطور ہدیہ پیش خدمت ہے: رُخسار ترا مشعلِ سوزاں نظر آئے چہرہ ترا مہتابِ درخشاں نظر آئے مکھڑا ترا روشن سا جواہر کی جھلک دے دندان ترا گوہرِ تاباں نظر آئے شارع جو بنائے تو کوئی دل تلک اپنے اُس راہ پہ ہر شخص خراماں نظر آئے دولت جو لگے...
  8. م

    میری پہلی رباعی - برائے تبصرہ

    شعروں سے تعلق تو نبھانا ہوگا پر جی کو رباعی سے لگانا ہوگا جن جن کے تصور سے تھی آباد غزل اب اُن کو کسی طور بھلانا ہوگا
  9. م

    میر زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت

    زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت دل لگا کر ہم تو پچھتائے بہت جب نہ تب جاگہ سے تم جایا کیے ہم تو اپنی اور سے آئے بہت دیر سے سوئے حرم آیا نہ ٹک ہم مزاج اپنا ادھر لائے بہت پھول گل شمس و قمر سارے ہی تھے پر ہمیں ان میں تمہی بھائے بہت گر بکا اِس شور سے شب کو ہے تو روویں گے سونے کو ہمسائے بہت وہ جو نکلا صبح...
  10. م

    آنکھوں پہ بٹھانا مرا دستور نہیں ہے - منیب احمد فاتحؔ

    آنکھوں پہ بٹھانا مرا دستور نہیں ہے یوں ملنا ملانا مرا دستور نہیں ہے چپ چاپ اسے دیکھتا ہوں غیر کے ہمراہ باتوں کو بڑھانا مرا دستور نہیں ہے پھرتا ہے پشیمان وہ خود روٹھ کر اب کے ہر بار منانا مرا دستور نہیں ہے مجبور نہ کر مجھ کو ترے دیس کو چھوڑوں پھر لوٹ کے آنا مرا دستور نہیں ہے سننے کا بہت شوق ہے...
  11. م

    درخواستی

    نمی دانم برای این نخ چہ جا بھتر است اما درخواستی دارم۔ فکر می کنم چگونہ است اگر در این محفل بطور ثابت جای را اھدا کردہ شود برای دوستانیکہ فارسی دانند و می خواھند کہ تخلیقات فارسی شان را پیش بیاورند۔ و دوستانیکہ فارسی را خوب یاد گرفتہ اند آن تخلیقات را تصحیح کنند۔ اگر این ممکنہ سپس برای دانش...
  12. م

    آسماں پر سحاب حیرت ہے - منیب احمد فاتحؔ

    آسماں پر سحاب حیرت ہے یہ نقاب النقاب حیرت ہے کعبہ پر ہے گمان پانی کا در طوافِ سراب حیرت ہے جبکہ عالم تمام ہے نشہ مے کدوں میں شراب حیرت ہے آنا اپنا ہزار دقت سے اور جانا شتاب حیرت ہے صبح تھا میں سوال پر حیران شام پا کر جواب حیرت ہے بندہ دیکھے یا بندہ پرور میرؔ خواب در ہر نقاب حیرت ہے ٭ میرؔ...
  13. م

    اردو محفل کی آٹھویں سالگرہ

    مثنوی جائیے جشن گر منانے کو آئیے میرےہی ٹھکانے کو میز کرسی لگائے دیتا ہوں ٹاٹ قالیں بچھائے دیتا ہوں ماہا* اور عینی* ہے کہاں نَمرہ* تم سبھوں نے سجانا ہے کمرہ کام چورو! کرو نہ یوں بَھیں بھَیں گر مدد چاہیئے مدیحہ* ہیں تھیں جنہیں بزمِ بادہ خواراں میں آج سلطانیاتِ مے لانی بسکہ افسوس سے یہ کہتا ہوں آ...
  14. م

    نہ آج روک مجھے اے بہار جانے دے - منیب احمد فاتحؔ

    نہ آج روک مجھے اَے بہار جانے دے چمن پہ اَور بھی آئے نکھار جانے دے کسے گمان کروں آشنائے حالِ خراب اگر نہ کوئی سرِ کوئے یار جانے دے لہو کو ننگ ہے اِن آبلوں سے پھوٹ بہے اَے خستہ پائی سوئے خارزار جانے دے گزارہ شہر میں مشکِل ہے بیچ آ مجھ کو یہ فکرِ iرفتگئ iکاروبارi جانےi دے اُٹھا نہ پاؤں مرے...
  15. م

    داغ زاہد نہ کہہ بری کہ یہ مستانے آدمی ہیں

    زاہد نہ کہہ بری کہ یہ مستانے آدمی ہیں تجھ کو لپٹ پڑیں گے یہ دیوانے آدمی ہیں غیروں کی دوستی پر کیوں اعتماد کیجے یہ دشمنی کریں گے بیگانے آدمی ہیں جو آدمی پہ گزری وہ اک سوا تمہارے کیا جی لگا کے سنتے افسانے آدمی ہیں کیا چور ہیں جو ہم کو درباں تمہارا ٹوکے کہہ دو کہ یہ تو جانے پہچانے آدمی ہیں...
  16. م

    پہلی آزاد نظم - منیب احمد فاتح

    لیجئے وہی ہوا رہا تھا جس کا ڈر مجھے بہت چلایا پر مرا ذرا نہ زور چل سکا وہ آنے لگ گیا حسین دلنواز خواب میں نجانے کس حساب میں ہاں شاید ایک اَن سنے سوال کے جواب میں سو میں ہوں اور تمام شب وہ اُس کی چھیڑ خانیاں وہ پاس آ کے بے سبب ہی دور دور جانیاں وہ جس کو عرفِ عام میں کہو تو ' لن ترانیاں '
  17. م

    دنیا کے جب طلسم سے آزاد ہو گئے - منیب احمد فاتحؔ

    لو صاحبو، پچھلی مثنوی نے جو کچھ مجھے بخشا - وہ کسی کا منی آرڈر تو نہیں :) - ہاں چند اشعار ضرور ہیں۔ وہی پیش کرتا ہوں اور سچ کہوں تو یہ تو میں نہیں جانتا کہ اب بھی شاعری کیوں کرتا ہوں مگر کرتا ہوں۔ میری شاعری کسی کو بھاتی نہیں - کوئی کلاسیکی کہتا ہے تو کوئی عربی فارسی کی شاعری کہتا ہے - مگر کیا...
  18. م

    اردو محفل کے نام - منیب احمد فاتحؔ

    مثنوئ مفلسی (در بیانِ احوالِ خستہ) لب آزاد ہوں تا ہر اِک بند سے شروعات نامِ خداوند سے کہ جس کی عنایت سے تکوین ہے وہی لائقِ حمد و تحسین ہے پس از ذکرِ باری کہوں حال دل نہیں گفتنی گرچہ احوالِ دل میاں! بات اتنی ہے سہ روز سے نگاہِ متین و جگر سوز سے یہ اعلان تکتا ہوں میں بار بار تعاون میں کچھ دیویں...
  19. م

    آرزو جس عہدِ بے پایاں کی ہے - منیب احمد فاتحؔ

    مجھے ذاتی طور پر لفظ میرؔ بطورِ تخلص نہایت پسند ہے۔ مگر حضرت میر تقی میرؔ کے احترام میں اس کو اپناتا نہیں۔ خیر اپنی واحد غزل کہ جس میں میں نے اس تخلص کو برتا تھا نذر محفل کرتا ہوں تا کہ یادگار رہے۔ آپ حضرات غزل پر بھی رائے دیجئے گا: آرزو جس عہدِ بے پایاں کی ہے وہ گھڑی نظارۂ خوباں کی ہے پھول کے...
  20. م

    ایک تازہ غزل - منیب احمد فاتح

    ایک تازہ غزل پیش ہے۔ جی کھول کر تنقید کریں تاکہ معائب و محاسن سامنے آ سکیں۔ عرض کیا ہے: کسے فراغ پریشانئ عدو کے لئے بہت ہے حلقہِ احباب ہاؤ ہو کے لئے حسد سے مانگتی پھرتی ہے چشم رو بفرار شکستگی تمکنتِ حسنِ خوب رو کے لئے زشہرِ سنگ پرستاں ہوں داد خواہِ جنوں شکستِ شیشہِ پندارِ آبرو کے لئے سخن طرازئ...
Top