نتائج تلاش

  1. السید کامل عباس الجعفري

    گھر کو چھوڑا شاہ نے جنت بسانے کے لیے (تعشق لکھنوی)

    گھر کو چھوڑا شاہ نے جنت بسانے کے لیے کربلا میں آئے تھے دنیا سے جانے کے لیے ظہر کو زینب سے جب ملنے گئے گھر میں حُسین کوئی ڈیوڑھی پر نہ تھا پردہ اٹھانے کے لیے صبر یہ تھا مرگ پر باندھی جو اکبر نے کمر شہ نے الٹی آستیں لاشہ اٹھانے کے لیے کہتی تھی ماں خط مرے اکبر کو تھا پیغامِ مرگ یہ جوانی آئی تھی...
  2. السید کامل عباس الجعفري

    کربلا گواہی دے ۔ افتخار عارف

    کربلا گواہی دے فاطمہ کی بیٹی نے باپ کی شجاعت کو صبر سے بدل ڈالا بھائی کی رفاقت کا حق ادا کیا کیسا کربلا گواہی دے باب شہر حکمت سے خیمہ گاہ نصرت تک محضر شہادت تک کیسے کیسے نام آئے کیا عجب مقام آئے حق کی پاسداری کو فرض جاننے والے راہ حق میں کام آئے ساتھ ساتھ تھی زینب کربلا گواہی دے پھر وہ شام...
  3. السید کامل عباس الجعفري

    اردو ہے میرا نام میں "خسرو" کی پہیلی - اقبال اشعر

    اردو ہے میرا نام میں "خسرو" کی پہیلی میں "میر" کی ہمراز ہوں "غالب" کی سہیلی دکّن کے ولی نے مجھے گودی میں کھلایا "سودا" کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا ہے "میر" کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا میں "داغ" کے آنگن میں کھلی بن کے چمیلی اردو ہے میرا نام میں "خسرو" کی پہیلی "غالب" نے بلندی کا سفر مجھ کو...
  4. السید کامل عباس الجعفري

    نہیں ہے کوئی ذریعہ صبا، حسین تو ہیں - صبا اکبر آبادی

    حسین نزہتِ باغِ پیمبرِ عربی حسین نازشِ فاقہ، وقارِ تشنہ لبی حسین مرکزِ ایثار و مخزنِ تسلیم حسین شمعِ حقیقت، چراغِ بزمِ نبی حسین لختِ دلِ مرتضیٰ و جانِ بتول جہاں میں کس کو میسر ہے یہ علو نسبی حسین، سینۂ اکبر سے کھینچ لی برچھی حسین سینہ میں اس وقت کیسے آہ دبی ستم کا تیر بھی دیکھا گلوئے اصغر...
  5. السید کامل عباس الجعفري

    زمانہ ڈھونڈ رہا ہے کوئی نیا شبّیر - مولانا کوثر نیازی

    دل و دماغ میں مہر و وفا کے افسانے تصورات میں روشن فضائے بدر و حُنین خوشا یہ اوجِ مقدر، زہے یہ عز و شرف مری زباں پہ جاری ہے آج ذکرِ حُسین نہ فکر سود و زیاں کی، نہ ذکرِ تیغ و تبر حُسین، راہِ خدا میں تری یہ بے تابی بہار گلشنِ اسلام میں پلٹ آئی کہ تیرے خون سے قائم ہے اس کی شادابی کہیں بھی...
  6. السید کامل عباس الجعفري

    سوچتا ہوں کہ اسی قوم کے وارث ہم ہیں - شورش کاشمیری

    سوچتا ہوں کہ اسی قوم کے وارث ہم ہیں جس نے اولاد پیمبر کا تماشا دیکھا جس نے سادات کے خیموں کی طنابیں توڑیں جس نے لختِ دل حیدر کو تڑپتا دیکھا برسرِ عام سکینہ کی نقابیں الٹیں لشکرِ حیدر کرار کو لٹتا دیکھا اُمِّ کلثوم کے چہرے پہ طمانچے مارے شام میں زنیب و صغریٰ کا تماشا دیکھا شہ کونین کی...
Top