نتائج تلاش

  1. سارہ بشارت گیلانی

    اب تو فرقت میں اطمینان سا ہے

    آداب دوستو، بہت عرصے بعد یہاں کچھ پوسٹ کر رہی ہوں. ہوتا یوں ہے کہ کبھی کبھار دو چار لوگوں کی رائے مختلف ہوتی ہے کچھ غزلوں کو لے کر۔ ایک کہتا ہے اس کی تقطیع یوں ہے ایک کہتا ہے یوں ہے۔ جو تھوڑا بہت خود آتا ہے اس پر بھی شک ہونے لگتا ہے :) ایسی ہی ایک غزل یہاں پوسٹ کر رہی ہوں۔ وزن کے بارے میں...
  2. سارہ بشارت گیلانی

    اے صنم، تیرا بدلنا دیکھا ۔ برائے اصلاح، تنقید، تبصرہ

    آداب! میری اپنے تخلص کے ساتھ لکھی گئی پہلی غزل مزمل شیخ بسمل صاحب کی بے حد شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میرے لئے اس تخلص کا انتخاب کیا۔ I'm very grateful to you ji :) اے صنم، تیرا بدلنا دیکھا آفریں، دل کا سنبھلنا دیکھا ہوا دن ڈوبتے سورج کی نذر رات پھر چاند کا جلنا دیکھا ایک اُس پیکرِبرفاب کا...
  3. سارہ بشارت گیلانی

    اگر دیکھو تو جلووں میں عیاں ہے - برائے اصلاح تنقید تبصرہ

    ڈائری میں یہ غزل ملی ہے۔ پتہ نہیں یہ میں نے یہاں پہلے شیئر کی ہے یا نہیں۔ اگر کی ہے تو kindly ignore اگر نہیں کی تو please comment and thank you for your time اگر دیکھو تو جلووں میں عیاں ہے کہ ان پردوں میں کون آخر نہاں ہے پرائے کیوں ہوئے موسم سبھی جب زمین اپنی ہے اپنا آسماں ہے نہ خوں...
  4. سارہ بشارت گیلانی

    ایک انجان وفا یاد آیا - برائے اصلاح تنقید تبصرہ

    ایک انجان وفا یاد آیا ایک انجام جفا یاد آیا آج دیکها تیرے ہاتھوں میں گلاب پوچھ مت ہم سے کہ کیا یاد آیا میں اسے دل میں بسا بیٹهی ہوں پس دیوار انا یاد آیا پهول مہکیں، لے گهٹا انگڑائی باولی سی ہے ہوا یاد آیا وقت بهی کس سے وفا کرتا ہے دیکه موسم کی ادا یاد آیا وقت رخصت وہ پلٹتا لیکن جاتے جاتے...
  5. سارہ بشارت گیلانی

    اے صنم مجھ پہ یہ عطا ہی سہی - برائے اصلاح تنقید تبصرہ

    اے صنم مجھ پہ یہ عطا ہی سہی تیری پتهر دلی ادا ہی سہی کچھ تو اس جبر کا صلہ پاوں تو مجھے مل بهلے ذرا ہی سہی کاہے پاداش میں یہ عمر کٹے تجه سے الفت میری خطا ہی سہی آج مجھ سے مرے رقیب کہیں تیری الفت میری سزا ہی سہی
  6. سارہ بشارت گیلانی

    مجھے عادت ہے چاہے جانے کی - برائے اصلاح تنقید تبصرہ

    مجھے عادت ہے چاہے جانے کی اسے عادت ہے دل لگانے کی ایک خواہش تهی گهر بسانے کی ایک حسرت تهی آشیانے کی مجھ میں جرات ہے جاں سے جانے کی تجه میں ہمت ہو آزمانے کی وہ میرا نام لے کے جیتا ہے کیا ضرورت کسی بہانے کی چار سو پهیلتا اندھیرا ہے رات ہے زخم دل جلانے کی کچھ کمی غم گسار کی ٹهہری کچھ مری خو ہے...
  7. سارہ بشارت گیلانی

    مقصد گیتی ہے کیا؟ - برائے اصلاح تنقید تبصرہ

    مقصد گیتی ہے کیا؟ مر گئے جب جی لیا؟ صورتیں بدلی گئیں غم مجھے اک ہی ملا سو فسانے اب گهڑوں اک جو سچ اس نے کہا بے سر و سامان ہوں دل ہے داو پر لگا رات کے پہلو میں اک دن کوئی سہما رہا تم کیا میرے ساتھ ہو؟ عشق نے دل سے کہا دائرے کهنچتے گئے ورد وہ کرتا گیا کل تهے ہو اب بهی تمہی پهر ہے کیا...
  8. سارہ بشارت گیلانی

    یہ عشق والہانہ کیا ہوا ہے برائے اصلاح تنقید تبصرہ

    یہ عشق والہانہ کیا ہوا ہے جنوں کا بهی ٹهکانہ کیا ہوا ہے کسی سے یہ سوال آج کیجے کوئی اپنا بگانہ کیا ہوا ہے اسیر وقت ہے ذہن بهی یوں اب کہ غم کا اک زمانہ کیا ہوا ہے نظر کی بات، بات ہوتی ہے جب تو گفتگو بہانہ کیا ہوا ہے کبهی یہ تتلیوں سے بهی تو سن لو گلوں کا بهی فسانہ کیا ہوا ہے چلو سوئے فصیل...
  9. سارہ بشارت گیلانی

    کہ اب کوئی امید بهی نہیں تو کیا کریں برائے اصلاح تنقید تبصرہ

    کہ اب کوئی امید بهی نہیں تو کیا کریں سو کیوں ستم سہیں سو کس لئے جلا کریں خرد بهی قید ہے زباں بهی بس میں اب نہیں سو کس سے کچھ سنیں کسی سے کیا کہا کریں دلبر کی دلکشی تو دل لگی کی شرط ہے دلدار ہو کوئی کہ جس سے ہم وفا کریں ہر سمت ہی اللہ کی قدرت دکهے ہمیں دیدار اس صنم کا ایسے جا بجا کریں ہر درد...
  10. سارہ بشارت گیلانی

    آج تاروں کی حسیں سیج تلے مجھ کو بلا - برائے اصلاح تنقید تبصرہ

    آج تاروں کی حسیں سیج تلے مجھ کو بلا میری یادوں کے گلستان میں اک پهول سجا یوں میرا نام لے دل میں کئی نغمات جگیں تو مجھے یاد کی وادی سے کبهی ایسے بلا تو جو افگار محبت ہے تو کیا غم ہے اے دل یہ تو انعام وفا ہے اسے سینے پہ سجا آ میری ذات سے تو ذات کا سودا کر لے میں تیرے دل میں بسوں تو میرے لفظوں...
  11. سارہ بشارت گیلانی

    اپنے خوابوں کو سلا دوں کیسے - برائے اصلاح تنقید تبصرہ

    اپنے خوابوں کو سلا دوں کیسے رات آنکھوں میں بتا دوں کیسے آگ تو دل میں لگا دوں اس کے پر اسے عشق سکها دوں کیسے ایک دیوار انا ہے سالم سوچتی ہوں یہ گرا دوں کیسے وہ مرا لمسِ شفا مانگے ہے آگ سے آگ بجها دوں کیسے راز الفت ہے یہ کهل جاتا ہے اسے یہ راز بتا دوں کیسے
  12. سارہ بشارت گیلانی

    میرا یہ دن بہت اداس رہا - برائے اصلاح تنقید تبصرہ

    میرا یہ دن بہت اداس رہا خفا رہا جو میرے پاس رہا وہ یا تو خواب یا سراب ہوا وہ ہر طرح سے میری پیاس رہا وہ میری تلخیوں میں ساتھ مرے مرے مزاج کی مٹهاس رہا ہر عیب اس پہ کهل گیا میرا وہ اس طرح مرا لباس رہا تو خود نہ تها مگر اثر تیرا تو خوشبووں سا آس پاس رہا
  13. سارہ بشارت گیلانی

    یہ سوچتی ہوں کیا کیا اس نے - برائے اصلاح تنقید تبصرہ

    یہ سوچتی ہوں کیا کیا اس نے مرا چہرہ بهی پڑھ لیا اس نے میں الجهنوں کی زد میں تهی ہر سو جو فیصلہ تها کر دیا اس نے وہ اک خمار تها کہ چاہت تهی مجھے گلے لگا لیا اس نے سراغ خود مجھے نہیں ملتا وہ راز مجھ کو کر دیا اس نے صدائیں گونجتی ہیں سینے میں لبوں کو یوں ہے سی لیا اس نے بدل رہا ہے اب کے جو...
  14. سارہ بشارت گیلانی

    دل بے تاب گمانوں میں گهرا رہتا ہے - برائے اصلاح تنقید تبصرہ

    دل بے تاب گمانوں میں گهرا رہتا ہے جو ترے لب پہ کوئی حرف دهرا رہتا ہے موسم گل کی نہ پت جھڑ کی خبر ہوتی ہے زخم دل اپنا سبهی رت میں ہرا رہتا ہے نقش مبہم کوئی چہرہ ہے تخیل میں مرے مری آنکھوں میں جو اشکوں سا بهرا رہتا ہے ایک آہٹ مری دهڑکن میں بسی ہے کب سے ایک لمحہ ہے جو پلکوں پہ دهرا رہتا ہے
  15. سارہ بشارت گیلانی

    نہ خوشی کے نہ انا کے نہ آبرو کے لئے - برائے اصلاح تنقید تبصرہ

    نہ خوشی کے نہ انا کے نہ آبرو کے لئے یہ جستجو جو ہے فقط ہے جستجو کے لئے چهڑا ہے دهڑکنوں میں راگ محبت تو صنم سجی ہے محفل بہار رنگ و بو کے لئے وہ جنکی گفتگو میں ضد تهی ہم سے ملنے کی وہ اب کے مل رہے ہیں صرف گفتگو کے لئے کیا جی رہے ہو فقط اس لئے کہ مرتے نہیں؟ یا جی رہے ہو زندگی کی آرزو کے لئے...
  16. سارہ بشارت گیلانی

    پاس ایسے بهی نہ آ - غزل برائے اصلاح تبصرہ تنقید

    پاس ایسے بهی نہ آ خوف جدائی نہ رہے دور ایسے بهی نہ جا ظرف دہائی نہ رہے میں ترے عشق کے زنداں میں مقید ہوں مگر یوں اسیر اب کے کرو شوق رہائی نہ رہے خواب بن کر ہی سہی پر یوں نگاہوں میں رہو تم نہ ہو پاس تو احساس جدائی نہ رہے ایسے احساس تجسس کو نہ اکسا یہ نہ ہو تیری خلقت میں خدا تیری خدائی نہ رہے
  17. سارہ بشارت گیلانی

    وہ آس پاس ہے مرے قریب پر نہیں -

    وہ آس پاس ہے مرے قریب پر نہیں یہ داستان عشق بهی عجیب پر نہیں ملا کبهی جدا ہوا یہ سلسلہ رہا وہ آس تو بنا رہا نصیب پر نہیں یہ وقت ہے دعا پہ ہے یقیں فقط ہمیں دوا پہ اعتبار ہے طبیب پر نہیں بڑهی جو آشنائی یہ ہی منکشف ہوا نہیں گو دوستوں میں وہ رقیب پر نہیں ہے تجھ پہ بهی یقین خود پہ اعتبار ہے یہی...
  18. سارہ بشارت گیلانی

    خزاں رسیدہ ہے چمن کوئی حساب تو ہو - برائے اصلاح و تنقید

    خزاں رسیدہ ہے چمن کوئی حساب تو ہو بہار کا ہو احتساب کچھ جواب تو ہو کوئی جدائی کی رتوں کا بھی شمار کرے کوئی تو قائدہ ہو، یار کچھ نصاب تو ہو وصال یار پیار کی نہیں ہے شرط مگر کوئی گمان ہو کہیں کوئی سراب تو ہو رہ وفا پہ ہر ہی شب بہت اندھیر ہوئی کہیں فلک پہ ستارہ یا ماہتاب تو ہو گو بے تکلفی...
  19. سارہ بشارت گیلانی

    چاند تاروں کو یا پھولوں کو مستعار لیا - برائے اصلاح و تنقید

    چاند تاروں کو یا پھولوں کو مستعار لیا تیرے فراق کا موسم یونہی گزار لیا اس دفعہ موسم گل میں کمال ایسا ہے لگے کہ تجھ سے بہاروں نے کچھ ادھار لیا وہ جو چہرے بدل کے آس پاس رہتا تھا وہم کا اب کی بار اس نے روپ دھار لیا نہ ہوا گل چراغ شب سحر کے ہونے تک گو بام و در سے تیرا ہر نشاں اتار لیا مری...
  20. سارہ بشارت گیلانی

    کیا یہ قوافی ہو سکتے ہیں؟

    ملنا اتنا سلنا مٹنا کِھلنا دِکھنا بِکنا لِکھنا کتنا جتنا۔۔۔ مجھے "ملنا" کے ساتھ قوافی کی ضرورت ہے مگر ذہن میں کِھلنا، سِلنا، ہِلنا کے علاوہ کچھ نہیں آ رہا اس لیئے سوچا پتہ کر لوں اگر یہ سب استعمال کر سکتی ہوں تو کر لوں۔
Top