کچھ وقفے کے بعد چند اشعار لے کر حاضر ہوں برائے اصلاح و تنقید۔۔۔۔۔۔
آگ میں جلتے مکانوں کا دھواں دیکھا ہے
ہم نے دیکھا ہےجو وہ تم نے کہاں دیکھا ہے
خواب دنیا نے ابھی تک کہ کہاں دیکھا ہے
آنکھ میں اُڑتا ہوا صرف گماں دیکھا ہے
شاید اس آس پہ سویا ہے بلکتا بچّہ
اُس نے اُٹھتا جو انگیٹھی سے دھواں دیکھا ہے...
تمام احباب کو نئے عیسوی سال کی بہت مبارکباد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نئے سال کی تازہ تازہ غزل لے کر حاضر ہوں۔۔۔۔
ہفت افلاک سے بھی آزردہ ہوں
اپنی اس خاک سے بھی آزردہ ہوں
مجھ کو رُسوا، یہ زمانے میں کرے
چشمِ نمناک سے بھی آزردہ ہوں
زخم پوشاک ہوئےہیں مجھ کو
اور پوشاک سے بھی آزردہ ہوں
خواہشِ بادِ بریں بھی ہے...
اعجاز عبید صاحب اور دیگر احباب، ایک اور تجرباتی غزل لے کر حاضر ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی اتار کے کاندھوں سے رکھی ہے تھکن
لپٹ کے پیروں سے میرے رو پڑی ہے تھکن
برس رہا تھا لہو آنکھوں سے رات مری
مگر ابھی بھی نجانے جل رہی ہے تھکن
نشان وقت کے ایسے نقش رخ پہ مرے
غم حیات کے جیسے جم گئی ہے تھکن...
پرائی آگ میں تو نے اسد جلا لیے ہاتھ
ستم ہوا کہ قضا نے بھی پھر اُٹھا لیے ہاتھ
ہوا نے کیسے چراغوں سے ہیں ملا لیے ہاتھ
ہمارے گھر کے اندھیروں نے تو جلا لیے ہاتھ
خوشا نصیب کہا تھا ہمیں کسی نجومی نے
سو کر رہے ہیں ملامت کہ کیوں دکھا لیے ہاتھ
ہمی نے اپنے تمام عیب کر دیے عیاں اُس پر
خود اپنے...
ایک دوست کی غزل حاضر ہے، آپ احباب کی رائے جاننا چاہتا ہوں کیا یہ غزل موضوع ہے؟ دوست کا کہنا ہے کہ یہ غزل غالب کی غزل "دل ہی تو ہے نہ سنگ و خِشت" کی زمین میں کہی ہے۔
لحظہ بہ لحظہ دیدنی نام و نشاں تمام شد
کارِ نگاہ پیش پیش کارِ جہاں تمام شد
قریہ بہ قریہ ، کو بہ کو ، صحرا بہ صحرا ، جُو بہ جُو...
"بارشوں کے موسم میں"
سردیوں کی بارش میں
بارشوں کے موسم میں
جب شجر نہاتے ہیں
پھول مسکراتے ہیں
مُرغ چہچہاتے ہیں
کھڑکیوں کے شیشوں پر
بوندیں جب تھرکتی ہیں
مل کے رقص کرتی ہیں
چائے کی پیالی سے
جب دھواں سا اُٹھتا ہے
اک خیال پھر دل میں
شکل سی بناتا ہے
کوئی یاد آتا ہے
جس کو یاد کر کے پھر
دل اُداس ہوتا...
مجھ کو مشکل نہیں اک پل میں کنارہ کر لوں
اور چاہوں تو محبت میں گزارا کر لوں
پیار، الفت، ہو کہ عشق و فراق و وصال
سب بلائیں ہیں، بلاؤں کا اتارا کر لوں
ایک ہی فن میں ہوں برسوں سے میں یکتہ لوگو!
جب بھی چاہوں تو میں اشکوں کو ستارہ کرلوں
خونِ دل، زخمِ جگر، اشک فشانی، ماتم
کر چکا ہوں جو کہو...
کاسے میں زندگی کے چَونّی پڑی ہے عمر
شوقِ وصالِ یار میں گُزری بڑی ہے عمر
جس کو سنبھالا میں نے کسی کانچ کی طرح
کوہِ گَراں کے جیسے مجھ پر کڑی ہے عمر
ہر لمحہ اپنے آپ سے لڑتا رہا ہوں میں
لشکر سے تیری یاد کے تنہا لڑی ہے عمر
ہر لحظہ ٹھوکروں میں رکھا وقت نے مجھے
سینے میں اک صلیب کی جیسے گڑی ہے...
مری زمیں ہے ترے آسماں سے الگ
مرا جہاں ہے ترے خاکداں سے الگ
مری جبیں کے نشاں آج بھی ہیں وہاں
تو پھر میں کیسے رہوں لامکاں سے الگ
میں حق شناس تھا، منصورہی تھا اگر
کیا نہ جاتا مجھے داستاں سے الگ
سفر ہوا نہ مرا ساحلوں کی طرف
ہوا ہوئی ہی نہیں بادباں سے الگ
ہیں شخصیت کے پُجاری یہ لوگ سبھی
سو...
یہ کرم ہے تیرے فراق کا، کہ جواں ہیں میری یہ خَلوتیں
مری دھڑکنوں میں جو سوز ہے، یہ ہیں مجھ پہ تری عِنایتیں
تجھے احِتراز ہے ہست سے، مجھے بُود کی ہیں مشقّتیں
یہ ہی ہست و بود میان میں مرے عشق کی ہیں رکاوٹیں
جو شرابِ دِید کی چاہ میں ہوا اَنگ اَنگ یہ طُور ہے
یہ فِشار خون کہیں جسے تری دِید کی...
کچھ الفاظ جوڑ کر خیالات کو رقم کرنے کی کوشش کی ہے، احباب کی رائے اور راہنمائی کا خواہش مند ہوں۔
وراء کے آئینے میں ماوراء ہے
یہی سب سے بڑا یک دائرہ ہے
مزاجِ عاجزی نے قفل کھولے
عیاں مجھ پر ہراک تحت الثریٰ ہے
مری تیرہ شبوں کا راز جانو
بدن میں نور سا میرے بھرا ہے
بساطِ زندگی میں مکر جیسے
سبھی...
ایک فورم پر ایک غزل نظر سے گُزری ترکیب کچھ انوکھی سی تھی سوچا دوستوں سے اور اہلِ سخن سے دریافت کیا جائے کہ شاعری کے تجربات اس بات کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔کیا قوافی کا اس طرح استعمال درست ہے؟
ہے سانس سانس میں اب بیکرانیِ مقتل
سو زندگی کو فقط آپ جانیے مقتل
سجی ہےچہروں پہ پژ مردگی قیامت کی...
وہ ہیں دلنواز ہوا کریں ، وہ نوازتے ہیں کِسے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے؟
وہ ہیں بے قرار ہوا کریں، وہ تلاشتے ہیں کِسے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے؟
میں تو زخم ، زخم بہار ہوں، نہ تو برگ ہے نہی بار ہے
مجھے کیا خبر کہ وہ اشک اشک سنوارتے ہیں کِسے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے؟
وہ ہر ایک شخص سے پُوچھنا، وہ پلٹ، پلٹ کے یوں دیکھنا
کبھی چھُپ کے...
تمام دوستوں کو 'عیدالضحٰی کی بہت بہت مبارکباد!
دیا اک نبردِکُہن چھوڑ کر
بجھا پھر سلگتا بَدن چھوڑ کر
تھمے اشک میرے بہت دیر میں
گیا درد بھی اک چُبھن چھوڑ کر
لہو میں ہوں جن کے وفاداریاں
سو جائیں کہاں وہ چَلن چھوڑ کر
کہاں اب محبت، کسے عشق ہے
گیا قیس بھی دشت و بَن چھوڑ کر
ہوئے اشک رسوا...
میں ہوں جب اپنے ہی اندر پھر یہ باہر کون ہے؟
کانچ کا دل ہے اگر تو پھر یہ پتھر کون ہے ؟
اس چمن میں اپنے گھر میں ہم اگر آزاد ہیں
قہر کی جیسے مسلط پھر یہ ہم پر کون ہے ؟
مان لوں میں سب ہے فانی ایک دن مٹ جائے گا
خواب آنکھوں میں سجاتا پھر یہ شب بھر کون ہے ؟
نور سے تخلیق ہوں اور نور میری روح ہے...
ایک طویل نظم برائے اصلاح و تنقید:
"چلو سپنے دکھاتے ہیں"
چلو آؤ!
تمہیں سپنے دکھاؤں میں
تمہیں ہسنا سکھاؤں میں
کہ پھولوں کی طرح کھلنا مہکنا
پرندوں کی طرح سے چہکنا سکھاؤں میں
تمہیں میں بادلوں ارٹنا سکھاؤں میں
ہمارے اس سفر میں
پھول، کلیاں، تتلیاں، جگنو،
پہاڑوں، آبشاروں، ندی، جھرنوں
کے نغمے بھی...
برف کے پگھلنے کا چاند کے نکلنے کا، ایک وقت ہوتا ہے
آہ کے مچلنے کا اور دل سنبھلنے کا، ایک وقت ہوتا ہے
کب سفر میں اُلفت کے منزلیں ملی کس کو، راحتیں ملی کس کو
فیصلہ بدلنے کا، ساتھ ساتھ چلنے کا، ایک وقت ہوتا ہے
عشق کی مرے دل میں آگ بُجھ گئی کب کی، صرف راکھ باقی ہے
آگ کے بھڑکنے کا، راکھ میں بدلنے...
کس کو پڑی ہے طور پہ جایا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی
اک تیرِنیم کش کہ ترازو نہ ہو سکا
آتی ہے کیسے سانس نہ پوچھا کرے کوئی
الفت میں تیری خود کو فنا کر گئے ہیں ہم
ہو عشق گر تو اس سے زیادہ کرے کوئی
فرصت کہاں ہے مجھ کو جو اک سانس لے سکوں
ایسے کسی کو یاد نہ آیا کرے کوئی
موجیں...