نتائج تلاش

  1. اسامہ جمشید

    فقیر آدمی ہوں مری لو دعا

    نقاب اب کے دل سے اتارے گئے گئے اس جہاں سے خسارے گئے انہیں عشق سے کچھ شغف سا رہا چلو اس بہانے سدھارے گئے اگر بات دشت وجنوں تک گئى تو اٹھ كر یہ سارے كے سارے گئے وه آتا رہا اس كے سپنے رہے قمر چل ديا تو ستارے گئے ہميں اپنے غم پر بڑا ناز تھا مگر شام غم تجھ پہ وارے گئے جو احساس ہى دل سے اٹھتا...
  2. اسامہ جمشید

    کیا تمہیں بھی گاڑھی نیند آتی ہے؟

    اے قرص خورشید تمہارے جاتے ہی میں اپنے ذخیرہ سے چند لکڑیاں چن کر آگ لگاتا ہوں اور اپنے وہم پکاتا ہوں تم بھی تو میرے الم پکاتے ہو کیا تمہیں بھی گاڑھی نیند آتی ہے؟ سنو میرے سورج تم میرے محسن ہو آج کل یہ لیل ونہار خدا کی رحمت بنے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ أسامہ جمشید
  3. اسامہ جمشید

    تو رُل گیا ایں شہزادے

    سردی کی نیم آنچ ۔۔۔ سڑک پر yellow lights ساکت رکشہ میں مبہم پریشانی۔۔۔ تکہ والا بولا: " تو رُل گیا ایںشہزادے" گھنے بال گھبرو فقیر سیخ کھا گیا ۔۔۔ أسامہ جمشید
  4. اسامہ جمشید

    میں فنا کا استعارہ ہوں

    او ری چڑیا ۔۔۔ نیاز دی تھی تم نے جس کے نام کی اب اس کے دربار پر جانا دست دعا اٹھانا قبر میں دفن اس بلی کی آواز تمہیں اک راز بتائے گی میں اسی کا دوسرا کنارا ہوں میں فنا کا استعارہ ہوں أسامہ جمشید
  5. اسامہ جمشید

    بطور تبرک زیارت کو آیا کرو ۔ ۔

    بطور تبرک زیارت کو آیا کرو ۔ ۔ اب سراسر ہتک ہو رہی ہے مرے ان چراغوں کی جو بھیگی راتوں میں روشن رہے یہ مرا خون کتنا جلا اور جلتا رہا اور مرے جسم پر کتنی آنکھوں نے تعویذ ٹانکے مری کج مزاجی پہ حسرت کی چادر چڑھی ہاں میں زندہ مزار اب بنا ہوں مجھے پھول وخوشبو کی حاجت نہیں بس بطور تبرک زیارت کو آیا...
  6. اسامہ جمشید

    دامن ہاتھ اور لغزش پیارے

    سوکھا سینہ جلتا ہوگا آس کا دریا بہتا ہوگا کس کی پلکیں کس کے پاؤں بننے والا مٹتا ہوگا دامن ہاتھ اور لغزش پیارے دم آرام سے گھٹتا ہوگا حسرت گروی رکھ کر کوئی کتنا ماتم کرتا ہوگا دل کا بھید تھا آدھا نکلا پر وہ پورا روتا ہوگا اس نے تیور کچھ کچھ بدلا کچھ کچھ خوش بھی ہوتا ہوگا آکر پیار سے...
  7. اسامہ جمشید

    الاؤ پگھلتا ہے سینے میں لیکن

    طرفدار آنسو چلے دل کی جانب الاؤ پگھلتا ہے سینے میں لیکن زمینی یقیں پر تمنّا کا اک سچ تنفّس کو دشوار ہونے سے روکے خدا ہے جو نشتر چبھونے سے روکے اسامہ جمشید اپریل 2019
  8. اسامہ جمشید

    آئی ٹن ما شاء اللہ ہٹ، شفیق استاد اخترؔ عثمان صاحب کی بیٹھک۔ ۔ ۔

    آئیٹن ما شاء اللہ ہٹ، شفیق استاد اخترؔ عثمان صاحب کی بیٹھک۔ ۔ ۔ میں ادیبوں کے جھرمٹ میں بیٹھا ہوا چائے کا ایک کپ پی چکا تھا مگر دوسری چائے کا منتظر میرا دل چند یادوں کی رنگینیوں کی جگالی میں مصروف تھا اک کڑی گفتگفو ان ادیبوں میں جاری رہی اور سنی ان سنی مجھ پہ طاری رہی حالتِ دل ادب سے گئی بات...
  9. اسامہ جمشید

    ہم نے بچوں کی طرح دوستی کی

    پہلی نثری کاوش ہم بچوں کی طرح لڑتے ہیں ہم بچوں کی طرح روتے ہیں ہم نے بچوں کی طرح دوستی کی 100 کیلو میٹر سے بھی زیادہ پہاڑ ہی پہاڑ ہیں رستے میں پھر بھی ہم ایک سا دھڑکتے ہیں کتنے مجبور ہیں اپنے آنسو فاصلے ہیں درد ناک رسموں کے ہم زمینی فاصلوں سے ڈرتے ہیں ہم کو غصہ ہے اپنے حالات پر جتنی دوری ہے...
  10. اسامہ جمشید

    ۔۔۔۔۔۔۔۔رحم کی اپیل ۔۔۔۔۔۔۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔رحم کی اپیل ۔۔۔۔۔۔۔ وہ جس نے فیصلہ کرنے کا پیشہ چن لیا آخر اسے کہہ دو قلم کو اب ذرا زحمت عطا کردے مجھے زنداں میں ڈالے وہ مجھے سولی چڑھا دے یا کوئی کچھ بھی سزا دے دے ۔۔ میں سب تسلیم کرتا ہوں ۔۔۔ میں اسکے دل کا مجرم ہوں ۔۔ یہ روز وشب کی پیشی سے مری توہین ہوتی ہے اسے کہہ دو بہت افتاد گزری...
  11. اسامہ جمشید

    ایک قطرہ بھی الفت سے خالی نہ تھا

    آئی ٹن ما شاء اللہ ہٹ، شفیق استاد اخترؔ عثمان صاحب کی بیٹھک۔ ۔ ۔ میں ادیبوں کے جھرمٹ میں بیٹھا ہوا چائے کا ایک کپ پی چکا تھا مگر دوسری چائے کا منتظر میرا دل چند یادوں کی رنگینیوں کی جگالی میں مصروف تھا اک کڑی گفتگفو ان ادیبوں میں جاری رہی اور سنی ان سنی مجھ پہ طاری رہی حالتِ دل ادب سے گئی بات...
  12. اسامہ جمشید

    دسمبر فیصلہ کردے ۔۔۔

    دسمبر دسمبر تیرے دردوں کی ابھی تک لاج رکھی پر مصیبت ٹوٹ کر ٹوٹی میں آنسو روک نا پایا گھنی تکلیف ہے بھیّا ۔۔ دسمبر تیری وسعت کی قسم تجھ کو بہت ہی تنگ پایا ہے میں شب بھر سو نہیں سکتا میں کھل کر رو نہیں سکتا ۔۔ دسمبر تجھ کو کیا معلوم یہ باریک سے احساس جن کو مدتوں پالا یہ کتنی بے بسی میں تھے...
  13. اسامہ جمشید

    محبت خواہشوں کی آخری دنیا

    کسی یلغار سے پہلے کسی کی جیت کے اندر محبت کار فرماں ہے محبت حور جیسی ہے محبت طور نے دیکھی محبت نور یزداں ہے کہیں اشکوں کے بہنے سے ذرا پہلے محبت اک دعا ہوگی کسی کے کانپتے ہونٹوں پہ جاری ایک لاغر التجا ہوگی محبت جاگتا جثّہ محبت ایک طاقت ہے محبت کی بہت شکلیں بہت سے نام ہوتے ہیں محض اک ظرف کا پتلہ...
  14. اسامہ جمشید

    شاہ اللہ دتہ

    شاہ اللہ دتہ اب شام ڈھلی سی جاتی ہے کچھ دیر وہاں پر سورج تھا دو چار پرندے بولے تھے اب رات نے چادر اوڑھی پربت پہ خموشی طاری ہے سنسان حویلی روشن ہے اک راز سا ہندی فلموں کا اس شوخ حویلی کے اندر کتنے ہی فسانے پنہاں ہیں اور لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں اس پار تو ندی چشمے ہیں اک پیڑ وہاں ہے برکت کا...
  15. اسامہ جمشید

    تری چاہت کے موسم کی برستی دوسری بارش

    تری چاہت کے موسم کی برستی دوسری بارش نومبر کی شبِ دوئم میں بھیگا ہوں ۔۔۔ میں دن بھر جتنی سڑکوں سے گزرتا تھا ۔۔ وہاں پر زرد پتے تھے جو مجھ کو سرد کرتے تھے ۔۔۔ بتاتے تھے کہ چاہت میں بکھرنے کے بہت لمحات آتے ہیں ۔۔ بہت سے روگ آتے ہیں بہت سے لوگ آتے ہیں ۔۔۔ یہ کالی رات میں بارش بہت خیرات لائی ہے...
  16. اسامہ جمشید

    ہتک ہونے نہ دینا تو

    مجھے ہر گز نہیں آتی تھی تیراکی نہ ہشیاری میں ڈوبا ہوں تری آنکھوں کی مستی میں نہ جانے کیوں یہ دریا ہیں تری آنکھیں مرے جثّے کو ڈھونڈ اب تو اگر مل جائے تو اس کو کفن دینا ۔ ۔ دفن کرنا کسی ناشاد جنگل میں کسی برباد صحرا میں مگر معلوم ہے مجھکو کہ تو مصروف بندہ ہے تو پھر اک بات روشن ہو کہ تیری پیاری...
  17. اسامہ جمشید

    میرے کم سن پیا ۔۔۔

    میرے کم سن پیا ۔۔۔ ایک تلخی خوشی دے رہی تھی وہ پکڑی گئی ۔ ۔ میرے حالات قاضی بنے ۔ ۔ اک عدالت لگی ۔ ۔ میری آنکھوں نے چاہا بچانا تجھے ۔ ۔ جرم ثابت ہوا ۔ ۔ حد سنا دی گئی ۔ ۔ تیری تصویر دل میں دبا دی گئی ۔ ۔ میرے کم سن پیا ۔ ۔ میں نے دھوکا دیا ۔ ۔ اسامہ جمشید اگست 2018، راولپنڈی ۔ ۔
  18. اسامہ جمشید

    گل برہنہ ہے یہ پوشاک تری دلکش ہے

    تیرے ہاتھوں میں ابھی جھوٹ کی مہندی نہ لگی تیرے سینے میں جو موتی ہیں وہ کم سن ہیں ابھی تیرے پیروں نے اداسی کو نہ جانا ہوگا تیری پتلی سی یہ گردن بھی فسانا ہوگا کیا خبر ہوگی ترے دل کو تری آنکھوں کی تیرے رخسار کی ہونٹوں کی گھنے بالوں کی گل برہنہ ہے یہ پوشاک تری دلکش ہے اف یہ مٹی بھی ترے بوجھ...
  19. اسامہ جمشید

    وہ حیلہ جُو بھی کمال کا تھا جو لڑکھڑایا تو مسکرایا

    وہ میرے دل کے اداس کمروں میں جگمگایا تو مسکرایا وہ حیلہ جُو بھی کمال کا تھا جو لڑکھڑایا تو مسکرایا اسے یہ خو تھی کہ میرے دل کے برامدے میں وہ رقص دیکھے عجیب شے تھا کہ وسوسوں نے اسے ستایا تو مسکرایا وہ محو حیرت تھا میری سوچوں کے کچھ کواڑوں کی خامشی پر حسین چہرے نے سادگی سے سراغ پایا تو مسکرایا...
  20. اسامہ جمشید

    کاوش

    نہ آنکھوں سے نہ دل سے ضبط ہوتا ہے، یہ روشن ہو ستائے گا جو مجھ کو اب میں اسکو بد دعا دوں گا اسامہ جمشید 30 اپریل 2018
Top