نتائج تلاش

  1. ایس فصیح ربانی

    غزل -یہاں لوگ ہیں سیدھے سادے کئی

    یہاں لوگ ہیں سیدھے سادے کئی بدلتے ہیں دن میں لبادے کئی جہاں تھے وہیں کے وہیں رہ گئے کہ بن بن کے ٹوٹے ارادے کئی نہ چلیے تو پھر کوئی رستہ نہیں جو چل دیجیے تو ہیں جادے کئی ملی شاہزادی نہ انصاف کی بھٹکتے پھرے شاہزادے کئی چلے شاہ اب اپنی اگلی بھی چال کہ فرزیں بہت اور پیادے کئی نہیں جانتے غم...
  2. ایس فصیح ربانی

    غزل ۔ زیست میں ہو کوئی ترتیب ضروری تو نہیں

    زیست میں ہو کوئی ترتیب ضروری تو نہیں لوگ ہوں تابعِ تہذیب ضروری تو نہیں مہربانوں نے بلایا ہے محبت سے مگر راس آ جائے وہ تقریب ضروری تو نہیں آپ جھٹلائیں مجھے، آپ کا ہے ظرف مگر میں کروں آپ کی تکذیب، ضروری تو نہیں دوست بھی تو مری تعمیر سے خائف ہوں گے ہوں عدو ہی پسِ تخریب، ضروری تو نہیں مجھ کو...
  3. ایس فصیح ربانی

    ہائیکو

    شاہین فصیحؔ ربانی ہائیکو اک بوڑھا کیکر جھینگر شور مچاتا ہے سوکھی شاخوں پر سورج ہے سر پر کیکر کے ننھے پتے سایا دیتے ہیں پت جھڑ کا منظر محوِ رقص ہے کیکر کی سوکھی شاخوں پر یادوں کے سائے شام ڈھلے مجھ روگی سے ملنے کو آئے پتے پر ٹھہرا تکتا ہے سورج کی راہ شبنم کا قطرہ پیپل کا...
  4. ایس فصیح ربانی

    غزل ۔ عرصہء خواب میں رہا جائے

    شاہین فصیح ربانی غزل عرصہء خواب میں رہا جائے نام تعبیر کا دیا جائے اس طرف بے سبب چلا جائے جس طرف دشت کی ہوا جائے اس یقیں سے سفر کیا جائے آپ منزل قریب آ جائے گھر سے مایوس کیوں ہوا جائے سامنے ہی دیا رکھا جائے اک جہاں درمیان حائل ہے کیسے اس تک مری صدا جائے وہ مری داستاں سنے نہ...
  5. ایس فصیح ربانی

    غزل ۔ کون اس داستان سے نکلے

    شاہین فصیح ربانی غزل پہلے اس خاکدان سے نکلے پھر کوئی آسمان سے نکلے حسرتوں کے جہان سے نکلے دل جو تیرے گمان سے نکلے دونوں کردار ہی ضروری ہیں کون اس داستان سے نکلے اس کے ہونے سے میرا ہونا ہے پھر وہ کیوں میرے دھیان سے نکلے رنجشیں جس سے اور بڑھ جائیں لفظ وہ کیوں زبان سے...
  6. ایس فصیح ربانی

    ایک قطعہ

    قطعہ فصل جڑ سے اکھاڑ کر رکھ دی اس نے کھیتی اجاڑ کر رکھ دی کر کے دعویٰ سنوارنے کا اسے شکلِ ہستی بگاڑ کر رکھ دی شاہین فصیح ربانی
  7. ایس فصیح ربانی

    غزل ۔ رابطہ جب مہ و اختر سے ہوا

    شاہین فصیحؔ ربانی غزل رابطہ جب مہ و اختر سے ہوا آشنا رات کے منظر سے ہوا پل گھڑی دُور سمندر سے رہے یہ کہاں تیرے شناور سے ہوا چوٹ باہر کی تو سہ جاتا میں وار مجھ پر مرے اندر سے ہوا فوج دشمن کی تعاقب میں نہ تھی قتل میں اپنے ہی لشکر سے ہوا مجھ کو دنیا سے شکایت کیوں ہو جو ہوا، میرے مقدر سے ہوا...
  8. ایس فصیح ربانی

    غزل - ہوائیں چلنے لگی ہیں سمندروں کی طرف

    شاہین فصیح ربانی غزل ترا گمان کہ بڑھتا ہے پستیوں کی طرف مرے یقین کی نظریں ہیں رفعتوں کی طرف میں اپنی ذات کی تنہائیوں میں شاداں تھا وہ مجھ کو لے گیا دنیا کی محفلوں کی طرف سب اپنے اپنے مسائل کی بات کرتے ہیں کسی کا دھیان تو ہو میری مشکلوں کی طرف یہ موسموں کا تغیر بھی دھیان میں...
  9. ایس فصیح ربانی

    غزل - تیغ اب اٹھائیں گے یا قلم اٹھائیں گے

    شاہین فصیح ربانی غزل تیغ اب اُٹھائیں گے، یا قلم اُٹھائیں گے سوچ کر اُٹھائیں گے جو قدم اُٹھائیں گے نازکی پہ مت جاؤ، بات حوصلے کی ہے دل ہے کانچ کا لیکن کوہِ غم اُٹھائیں گے کیا ہوا نہیں پیتے، ذوق ہے مگر اعلیٰ ہم اگر اُٹھائیں گے، جامِ سم اُٹھائیں گے اپنی وضعداری کی لاج ہم کو رکھنا ہے اب بھی ناز...
  10. ایس فصیح ربانی

    غزل - پھول ہیں یا کہ خار ہیں ہم لوگ

    غزل پھول ہیں یا کہ خار ہیں ہم لوگ آبروئے بہار ہیں ہم لوگ ہیں اسی اعتبار پر زندہ زیست کا اعتبار ہیں ہم لوگ ختم ہونے کو ہے حرارتِ زیست اختتامی شرار ہیں ہم لوگ منزلوں کی نوید جان ہمیں راستوں کا غبار ہیں ہم لوگ کیسی عجلت ہے، کیسی جلدی ہے کیوں ہوا پر سوار ہیں ہم لوگ سوچ سکتے ہیں، کر نہیں سکتے...
  11. ایس فصیح ربانی

    غزل ٹھوکر لگی تو کوئی سہارا نہیں ملا

    شاہین فصیح ربانی غزل ٹھوکر لگی تو کوئی سہارا نہیں ملا بھٹکے تو آسماں پہ ستارا نہیں ملا اُٹھ آتے اُس کی بزم سے‘ تھا حوصلہ مگر اُس کی طرف سے کوئی اشارہ نہیں ملا مخدوش بادبان تو کشتی ہوئی تباہ اور بحرِ زندگی کا کنارا نہیں ملا تنہائیوں کے دشت میں گم ہو کے رہ گئے کرتے بھی کیا کہ ساتھ...
  12. ایس فصیح ربانی

    غزل - دولت پہ ہر ایک نے نظر کی -- شاہین فصیح ربانی

    شاہین فصیح ربانی غزل دولت پہ ہر ایک نے نظر کی توقیر نہیں رہی بشر کی ہر سمت سراب رکھ دیئے ہیں نیت ہے خراب رہگزر کی سیدھے سے غرض بیان کر دو باتیں نہ کرو اِدھر اُدھر کی گو رات طویل ہو گئی ہے رکھتے ہیں امید ہم سحر کی صدیوں سے بیان کر رہا ہوں تمہید ہے عمرِ مختصر کی اللہ کو کیا...
  13. ایس فصیح ربانی

    غزل - ہو گئی ہیں لہو لہو آنکھیں

    شاہین فصیح ربانی غزل پھیر لیتا ہے مجھ سے تو آنکھیں چھوڑ دیتی ہیں آرزو آنکھیں کوئی دیوانہ اس کو سمجھے گا کر رہی ہیں جو گفتگو آنکھیں پا لیا پھر بھی مدعا میں نے چپ رہیں میرے روبرو آنکھیں آئنہ جھوٹ کس طرح بولے آئی ہیں اس کے روبرو آنکھیں میں کہاں ان سے بچ کے جاؤں گا رقص کرتی...
  14. ایس فصیح ربانی

    غزل - جب سمندر میں ہوا تیز ہوئی

    السلام علیکم! آپ کی خدمت میں پیش ہے ایک تازہ غزل غزل جب سمندر میں ہوا تیز ہوئی شورشِ سیلِ بلا تیز ہوئی نہ رہی بادِ صبا‘ بادِ صبا اپنی رو سے جو ذرا تیز ہوئی کھو گیا وقت تو اے مری زیست اب ہوئی تیز تو کیا تیز ہوئی بڑھی تنہائی‘ بڑھا سناّٹا اور دھڑکن کی صدا تیز ہوئی رات آئی تو...
  15. ایس فصیح ربانی

    غزل - تمھاری فتح کا اعلان کرنا چاھتا ہے

    شاہین فصیحؔ ربانی غزل تمہاری فتح کا اعلان کرنا چاہتا ہے زمانہ تم کو یوں حیران کرنا چاہتا ہے اسے کہیے کہ میری مشکلیں بڑھنے لگی ہیں جو میری مشکلیں آسان کرنا چاہتا ہے اِسی میں فائدہ مضمر ہے میرا‘ جانتا ہوں اگرچہ وہ مرا نقصان کرنا چاہتا ہے دعائیں اُس کی خیریت کی ہیں میرے لبوں پر جو میرے شہر کو...
  16. ایس فصیح ربانی

    غزل - خواب ہے یا خیال ہے دنیا

    شاہین فصیح ربانی غزل خواب ہے یا خیال ہے دنیا ایک مشکل سوال ہے دنیا اس میں پھنس کر نکل نہیں سکتے کوئی مکڑی کا جال ہے دنیا خلدِ عقبیٰ ہے اُس کا مستقبل جس کا ماضی نہ حال ہے دنیا آئنہ ہے مثال دنیا کی آئنے کی مثال ہے دنیا چند لمحوں کی‘ ساعتوں کی نہیں کاہشِ ماہ و سال ہے دنیا...
  17. ایس فصیح ربانی

    غزل - اللہ رے! اشارہء ابرو کا اعتبار

    غزل اللہ رے! اشارہء ابرو کا اعتبار آنے لگا ہے حسن کے جادو کا اعتبار کس بے یقین شہر میں زندہ ہیں ہم جہاں صوفی کا‘ پارسا کا‘ نہ سادھو کا اعتبار دیتا ہے ساتھ تیرگیء شب میں یا نہیں اِس عہد میں نہیں کوئی جگنو کا اعتبار موسم بدل گیا تو دکھائی نہ دے گا یہ ایسا ہی کچھ یہاں ہے پکھیرو کا...
  18. ایس فصیح ربانی

    غزل - یک رنگیِ حیات نے تڑپا دیا مجھے

    غزل یک رنگیِ حیات نے تڑپا دیا مجھے غم کی سیاہ رات نے تڑپا دیا مجھے یا دل کو زندگی کی تمنا نہیں رہی یا خواہشِ ثبات نے تڑپا دیا مجھے ہموار اس کی جیت کا رستہ کیا تھا آپ پھر کیوں یہ اپنی مات نے تڑپا دیا مجھے کتنی ہی آرزوؤں نے دل کو دیا قرار کتنی ہی خواہشات نے تڑپا دیا مجھے میں اس میں لمحہ لمحہ...
  19. ایس فصیح ربانی

    غزل - در دیکھنا کبھی، کبھی دیوار دیکھنا

    غزل - در دیکھنا کبھی، کبھی دیوار دیکھنا شاہین فصیحؔ ربانی شاید یہی جنوں کے ہیں آثار دیکھنا ’’در دیکھنا کبھی‘ کبھی دیوار دیکھنا‘‘ رکھنا قدم وہ اپنا جوانی کے چاند پر عشقِ بتاں میں دل کو گرفتار دیکھنا پانا نہیں نجات ابھی ایک رنج سے اک اور غم سے زیست کو دوچار دیکھنا ساحل پہ اک...
  20. ایس فصیح ربانی

    غزل - دریائے غم کا راہ سے ہٹنا محال ہے

    احباب کے ذوقِ مطالعہ کی نذرایک غزل دریائے غم کا راہ سے ہٹنا محال ہے اور آدھے راستے سے پلٹنا محال ہے یھ وہ شب وصال نھیں ھے کھ بیت جائے تنھائیوں کی رات ھے کٹنا محال ہے دل چاھتوں کی دھوپ کو ترسے گا اب سدا بادل کدورتوں کے ھیں چھٹنا محال ہے عزم و یقیں کو خوف نے معدوم کر دیا اب درمیاں کے فاصلے...
Top