نتائج تلاش

  1. ب

    مصطفیٰ زیدی دردِ دل بھی غمِ دوراں کے برابر سے اٹھا مصطفی زیدی

    دردِ دل بھی غمِ دوراں کے برابر سے اٹھا آگ صحرا میں لگی اور دھواں گھر سے اٹھا تابشِ حُسن بھی تھی آتشِ دنیا بھی مگر شُعلہ جس نے مجھے پُھونکا، میرے اندر سے اٹُھا کسی موسم کی فقیروں کو ضرورت نہ رہی آگ بھی ، ابر بھی، طوفان بھی ساغر سے اٹُھا بے صَدف کتنے ہی دریاوں سے کچھ بھی نہ ہوا بو جھ...
  2. ب

    حبیب جالب نیلو حبیب جالب

    تو کہ ناوا قفِ آدابِ شہنشاہی تھی رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے تجھ کو انکار کی جرّات جو ہوئ تو کیونکر سایہ ِءشاہ میں اسطرح جیا جاتا ہے اہلِ ثروت کی یہ تجویز ہے، سر کش لڑکی تجھکو دربار میں کوڑوں سے نچایا جاے ناچتے ناچتے ہو جاے جو پائل خاموش پھر نہ تازیست تجھے ہوش میں لایا جاے لوگ...
  3. ب

    احمد ندیم قاسمی لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔احمد ندیم قاسمی

    ریستوراں کے فرش پہ لرزاں سائے رقاصاؤں کے ذھن میں جیسے گڈ مڈ ہو کر ناچيں راز خداؤں کے چھنن چھنن چھن ! اے رقاصہ ! فن پہ یہ آوازے کیوں؟ جس کی لؤ سے پھول لجائيں، اس چہرے پہ غازے کیوں یوں تک جیسے چاند کی کرنیں ، یوں سن جیسے ربّ قدیر وقت کے اس لمحے کا تاثرّ عالم گیر ہے عالم گیر...
  4. ب

    مصطفیٰ زیدی پاگل خانہ مصطفی زیدی

    ہر طرف چاک گریباں کے تماشائ ہیں ہر طرف غول بیاباں کی بھیانک شکلیں ہم پہ ہنسنے کی تمنا میں نکل آئ ہیں چند لمحوں کی پر اسرار رہا ئش کے ليئے عقل والے لب مسرور کی دولت لے کر دور سے آئے ہیں اشکوں کی نمائش کے لیئے عقل کو زہر ہے وہ بات جو معمول نہیں عقل والوں کے گھرانوں میں پیمبر کے ليئے تخت...
  5. ب

    مصطفیٰ زیدی پہلی محبت کے نام مصطفی زیدی

    وقت سے کس کا کلیجہ ہے کہ ٹکرا جائے وقت انسان کے ہر غم کی دوا ہوتا ہے زندگی نام ہے احساس کی تبدیلی کا صرف مر مر کے جيئے جانےسے کیا ہوتا ہے تو غم دل کی روایات میں پابند نہ ہو غم دل شعر و حکایت کے سوا کچھ بھی نہیں یہ تری کم نظری ہے کہ تیری آنکھوں میں ایک مجبور شکایت کے سوا کچھ بھی نہیں...
  6. ب

    مصطفیٰ زیدی سراب - مصطفٰی زیدی

    ہر صدا ڈوب چکی قافلے والوں کے قدم ریگ زاروں میں بگو لوں کی طرح سو تے ہیں دور تک پھیلی ہو ئ شام کا سناٹا ہے اور میں ایک تھکے ہارے مسافر کی طرح سو چتا ہوں کہ مآل سفر دل کیا ہے کیوں خزف راہ میں خورشید سے لڑ جاتے لیں تتلیاں اڑتی ہیں اور ان کو پکڑنے والے یہی دیکھا ہےکہ اپنوں سے بچھڑ جاتے ہیں
  7. ب

    حبیب جالب عشق میں نام کر گئے ہو ں گے - حبیب جالب

    عشق میں نام کر گئے ہو ں گے جو ترے غم میں مر کئے ہوں گے اب وہ نظریں ادھر نہیں اٹھتی ہم نظر سے اتر گئے ہوں گئے کچھ فضاؤں میں انتشار سا ہے ان کے گیسو بکھر گئے ہوں گے نور بکھرا ہے راہ گزاروں میں وہ ادھر سے گزر گئے ہوں گے میکدے میں کہ بزم جاناں تک اور جالب کدھر گئے ہوں گے[/size]
  8. ب

    حبیب جالب اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا - حبیب جالب

    اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا رہ گيا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنا ہم کو حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا ہم نے جو بھول کے بھی شہہ کا قصیدہ نہ کہا شائد آیا اسی خوبی کی بدولت لکھنا اس...
  9. ب

    ہم اہل ظرف کہ غم خانہ ء ہنر میں رہے ۔۔۔ سحر انصاری

    ہم اہل ظرف کہ غم خانہ ء ہنر میں رہے سفالِ نم کی طرح دستِ کو زہ گَر میں رہے ہے چاک چاک رقم داستانِ گردشِ خاک نمودِ صورت و اشکال کیا نظر میں رہے فرار مل نہ سکا حبسِ جسم و جاں سے کہ ہم طلسمِ خانہ ء تکرار خیر و شر میں رہے کسی کو ربطِ مسلسل کا حو صلہ نہ ہوا مثال دودِ پریشاں ہم اپنے گھر...
  10. ب

    غزل ۔سحر انصاری۔ بہت اداس ہوں کوئی فسانہ کہہ مجھ سے

    بہت اداس ہوں کوئی فسانہ کہہ مجھ سے نہیں یہ عہد بھی عہد وفا، نہ کہہ مجھ سے اسی فضا میں میرے روز و شب گزرتے ہیں شکست ذات کا ہر ماجرا نہ کہہ مجھ سے حیات اصل میں ہے اپنے قرب کا احساس ترے بغیر بھی جینا ہوا، نہ کہہ مجھ سے یہ گفتگو تو رفاقت کی اک ضرورت ہے کو ئ حدیث سخن آزما نہ کہہ مجھ سے جمال...
  11. ب

    حبیب جالب غزل ۔ حبیب جالب ۔۔نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا

    نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا عصا اٹھاو کہ فرعون اسی سے جائے گا اگر ہے فکر گریباں تو گھر میں جا بیٹھو یہ وہ عذ اب ہے دیوانگی سے جائے گا بجھے چراغ ، لٹیں عصمتیں ، چمن اجڑ ا یہ رنج جس نے ديئے کب خوشی سے جائے گا جیو ہماری طرح سے مرو ہماری طرح نظام زر تو اسی سادگی...
  12. ب

    سحر انصاری،،نظم،، دیمک

    کتابوں کی دشمن کتابوں کی دشمن بھی ایسی کہ لفظوں کے رشتوں کو یکسر مٹادے غنیموں کے لشکر کی جاسوس بن کر فصیلوں کے ہمراہ شہروں کو ڈھانے کے سب گر بتادے تو یوں ہو کہ سنسان ہو جائیں سب سانس لیتی ہوئ بستیاں ایک پل میں خداوندِ حرف و معانی کے بیدار کاہن جو لفظوں کے معبد میں آنکھوں کی شمعیں جلائے...
  13. ب

    فیض ستم سکھلائے گا رسم وفا، ایسے نہیں ہوتا

    ستم سکھلائے گا رسم وفا، ایسے نہیں ہوتا صنم دکھلائيں گے راہ خدا، ایسے نہیں ہوتا گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئ ہیں تن کے مقتل میں میرے قاتل حسابِ خوں بہا ، ایسے نہیں ہوتا جہانِ دل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ تعزیریں یہاں پیمان تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا ہر اک شب ہر گھڑی گزرے قیامت یوں تو ہوتا...
  14. ب

    فیض فیض احمد فیض۔۔ نظم۔۔ تم ہی کہو کیا کرنا ہے

    جب دکھ کی ندیا میں ہم نے جیون کی ناؤ ڈالی تھی تھا کتنا کس بل بانہوں میں لو ہو میں کتنی لالی تھی یوں لگتا تھا دو ہاتھ لگے اور ناؤ پورم پار لگی ایسا نہ ہوا۔ ہر دھارے میں کچھ ان دیکھی منجدھاریں تھیں کچھ ما نجھی تھے انجان بہت کچھ بے پر کی پتواریں تھیں اب جو بھی چاہو چھان کرو اب جتنے...
  15. ب

    حبیب جالب نظم۔ حبیب جالب ۔ضابطہ

    یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازو ئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دےیہ دل یہ ضابطہ ہے کہ غم کو نہ غم کہا جائے یہ ضابطہ ہے ستم کو کرم کہا جائے بیاں کروں نہ کبھی اپنی دل کی حالت کو نہ لاؤں لب پہ کبھی شکوہ و شکایت کو...
  16. ب

    حبیب جالب غزل۔۔ جبیب جالب۔۔اس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے

    اس دورِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے زندہ ہیں یہی ، بات بڑی بات ہے پیارے یہ ہنستا ہوا چاند یہ پر نور ستارے تابندہ و پائندہ ہیں ذ ر و ں کے سہارے حسرت ہے کو ئ غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے ارماں ہے کوئ پھول ہمیں دل سے پکارے ہر صبح میری صبح پہ روتی رہی شبنم ہر رات میری رات پہ ہنستے رہے تارے کچھ اور بھی...
  17. ب

    ایپلیکیشن اور سافٹ وئیر

    میں کمپیوٹر کی دنیا کا انتہائ ادنا طالب علم ہوں( بلکہ جاہلِمطلق ہوں) کوئ بھائ مجھے ایپلیکیشن اور سافٹ وئیر کا فرق سمجھادے گا؟ بڑی نوازش ہو گی۔
  18. ب

    احمد ندیم قاسمی ہم اپنی قوتِ تخلیق کو اکسانے آئے ہیں - احمد ندیم قاسمی

    ہم اپنی قوّتِ تخلیق کو اکسانے آئے ہیں ضمیرِ ارتقاء میں بجلیاں دوڑانے آئے ہیں جو گردش میں رہیں گے اور کبھی خالی نہیں ہوں گے ہم ایسے جام بزمِ دہر میں چھلکانے آئے ہیں اجل کی رہزنی سے ہر طرف طاری ہیں سنّاٹے سرودِ زندگی کو نیند سے چونکانے آئے ہیں ہوائيں تیز ہیں جل جل کے بجھتے ہیں چراغ اپنے...
  19. ب

    احمد ندیم قاسمی نظم - یہ رات - احمد ندیم قاسمی

    دلیلِ صبح طَرب ہی سہی یہ سناٹا مگر پہاڑ سی یہ رات کٹ چکے تو کہوں پسِ نقاب ہی پنہاں سہی عروسِ سحر مگر یہ پر دہء ظلمات ہٹ چکے تو کہوں یہ رات بھی تو حقیقت ہے تلخ و تند و درشت اسے سحر کا تصور مٹا نہیں سکتا مجھے تو نیند نہیں آ‏ئيگی کہ میرا شعور شبِ سیاہ سے آنکھیں چرا نہیں سکتا اگر نشانِ سفر تک...
  20. ب

    احمد ندیم قاسمی بڑی مانوس لے میں ایک نغمہ سن رہا ہوں میں - احمد ندیم قاسمی

    بڑی مانوس لے میں ایک نغمہ سن رہا ہوں میں کسی ٹوٹی ہوئی چھاگل کی کڑ یاں چن رہا ہوں میں یہاں اب ان کے اظہاِر محبت کا گزر کیا ہو کہ سناٹے کی موسیقی پہ بھی سر دھن رہا ہوں میں شبِ وعدہ ابھی تک ختم ہو نے میں نہیں آئی کہ بر سوں سے مسلسل ایک آہٹ سن رہا ہوں میں تصور میں ترے پیکر کا سونا گھل گيا...
Top