نتائج تلاش

  1. آصف شفیع

    شاید کہ موجِ عشق جنوں خیز ہے ابھی۔ ثمینہ راجہ

    ثمینہ راجہ کی ایک غزل: شاید کہ موجِ عشق، جنوں خیز ہے ابھی دل میں لہو کی تال بہت تیز ہے ابھی ہم نے بھی مستعار لیا اُس سے رنگِ چشم اپنی طرح سے وہ بھی کم آمیز ہے ابھی پھر آبِ سرخ آنکھ سے بہتا دکھائی دے گویا یہ دل ملال سے لبریز ہے ابھی اک نونہالِ خواب ہے دنیا کی زد پر آج اِس غم کی خیر ہو کہ یہ...
  2. آصف شفیع

    شاید کہ موجِ عشق جنوں خیز ہے ابھی۔ ثمینہ راجہ

    ثمینہ راجہ کی ایک غزل: شاید کہ موجِ عشق، جنوں خیز ہے ابھی دل میں لہو کی تال بہت تیز ہے ابھی ہم نے بھی مستعار لیا اُس سے رنگِ چشم اپنی طرح سے وہ بھی کم آمیز ہے ابھی پھر آبِ سرخ آنکھ سے بہتا دکھائی دے گویا یہ دل ملال سے لبریز ہے ابھی اک نونہالِ خواب ہے دنیا کی زد پر آج اِس غم کی خیر ہو کہ یہ...
  3. آصف شفیع

    تیری صورت کی بات کرتے ہیں- آصف شفیع

    غزل تیری صورت کی بات کرتے ہیں پھول فطرت کی بات کرتے ہیں چھیڑیے اضطراب کا نغمہ آج وحشت کی بات کرتے ہیں سانس کو راستہ نہیں ملتا آپ ہجرت کی بات کرتے ہیں! ہم کو نفرت سے دیکھنے والو! ہم محبت کی بات کرتے ہیں اتنی تمہید کس لیے آصفؔ بس ضرورت کی بات کرتے ہیں
  4. آصف شفیع

    آنکھ کھل جائے گی۔ آصف شفیع

    ایک غزل: آنکھ کھل جائے گی تو خواب ادھورا ہوگا کس نے سوچا تھا مری جان! کہ ایسا ہوگا اب بھی کچھ وقت ہے خواہش پہ لگا لو پہرے بات جب حد سے بڑھے گی تو تماشا ہوگا وہ بچھڑنے کی گھڑی کتنی کڑی تھی اس پر مجھ کو معلوم ہے اُس رات وہ رویا ہوگا گزرے لمحوں کی اسے یاد تو آتی ہوگی جانے کیا سوچ کے آنگن میں ٹہلتا...
  5. آصف شفیع

    وہ کیسے خواب لمحے تھے۔ آصف شفیع

    ایک بہت پرانی نظم آج نظر سے گزری۔ احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت چاہوں گا۔ وہ کیسے خواب لمحے تھے صبا پیغام لائی تھی گلوں کی بے قراری کا عجب دیوانگی سی تھی خزاں دیدہ فضاؤں میں ردائے خوف نے سب کو چھپا رکھا تھا دامن میں کہیں شبنم بہاتی تھی زمیں پر خون کے آنسو کہیں کلیوں کے ہونٹوں سے تبسم روٹھ...
  6. آصف شفیع

    کہ شہرت یار تک پہنچے- آصف شفیع

    چھوٹی بحر ہی میں ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔ کہ شہرت یار تک پہنچے سو ہم اِس دار تک پہنچے سبھی طوفاں سے الجھے ہیں کوئی تو پار تک پہنچے! یہ ممکن ہے، مرا سایہ تری دیوار تک پہنچے یہ کچھ کم تو نہیں ہے، ہم کسی معیار تک پہنچے یہی تو ہے کمالِ فن ہنر اغیار تک پہنچے کہیں ایسا نہ ہو قصہ ترے انکار تک پہنچے ہو...
  7. آصف شفیع

    کئی زمانوں کا راستہ تھا۔ آصف شفیع

    دو غزلیں جو ایک ہی تسلسل میں کہی گئی تھی، ملاحظہ کیجیے.  کئی زمانوں کا راستہ تھا وہ ایک لمحہ جو کھو گیا تھا نجوم و مہ کی بلندیوں سے زمیں کو شب بھر میں دیکھتا تھا وہ میرے حصے کی روشنی تھی جسے میں اوروں میں بانٹتا تھا نئے سفر کا جواز لے کر خلا سے بھی میں گزر گیا تھا تھکن کا احساس راستے میں کہیں...
  8. آصف شفیع

    شب معراج کے حوالے سے چیند اشعار- آصف شفیع

    معراج زائروں کی ہے ہر گھڑی معراج سیرِطیبہ ہے عشق کی معراج کس بلندی پہ لے کے آئی ہے آدمیت کو آپؐ کی معراج میزبانی کے استعارے ہیں روح، برّاق، آگہی، معراج ان کے روضے کو دیکھ آیا ہوں اس سے بڑھ کر نہیں کوئی معراج مل گئی مدحتِ پیمبرؐ سے میرے لفظوں کو معنوی معراج سب زمانوں پہ ہے محیط آصف ایک لمحے میں...
  9. آصف شفیع

    پل میں دل توڑ دے کسی کا- آصف شفیع

    ایک غزل پیش خدمت ہے۔ پل میں دل توڑ دے کسی کا منصب یہ نہیں ہے آدمی کا آواز کو راستہ ملا ہے اعجاز ہے میری خامشی کا اک شمع خیال جل اٹھی ہے اک باغ کھلا ہے شاعری کا چہروں سے لہو ٹپک رہا ہے پیغام دو کچھ تو آشتی کا دنیا کی مجال کچھ نہیں ہے بخشا ہوا سب ہے آپ ہی کا کس دور کی بات کر رہے ہو کوئی بھی...
  10. آصف شفیع

    جذبہء عشق جوانی سے نکلتا کب ہے

    غزل: جذبہء عشق جوانی سے نکلتا کب ہے ایسا کردار کہانی سے نکلتا کب ہے موجِ خود سر بھی اُسے مات نہیں دے سکتی چاند اُجلے ہوئے پانی سے نکلتا کب ہے بعد مرنے کے بھی دنیا نہیں جینے دیتی آدمی عالمِ فانی سے نکلتا کب ہے آنکھ بھی محو ہے اُس قرب کی سرشاری میں دل بھی اُس شامِ سہانی سے نکلتا کب ہے موج...
  11. آصف شفیع

    ہم کو نسبت نہیں ہے میر سے کیا؟

    ایک غزل احباب کی خدمت میں: نکل آئے ہو تم شریر سے کیا؟ بحث کرتے ہو پھر ضمیر سے کیا؟ ناقدان سخن خفا کیوں ہیں؟ ہم کو نسبت نہیں ہے میر سے کیا؟ سانپ نفرت کا ڈس چکا سب کو لگے بیٹھے ہو اب لکیر سے کیا؟ جو بھی دینا ہے، دان کر ڈالو پوچھتے ہو بھلا فقیر سے کیا؟ اپنا ترکش ہٹا کے کہتے ہیں جان جاتی...
  12. آصف شفیع

    ترے ہمراہ چلنا ہے- آصف شفیع

    ترے ہمراہ چلناہے سفر غم کا زیادہ ہے غموں کی دھول میں لپٹےشکستہ جسم پر لیکن ، سلگتی جاگتی اور بے ارادہ خواہشوں کا اک لبادہ ہے زمانہ لاکھ روکے مجھ کو اس پر ہول وادی میں قدم رکھنے سے لیکن اب پلٹ سکتا نہیں ہرگز کبھی میں اس ارادے سے مجھے معلوم ہے اس راستے پر مشکلیں ہوں گی بگولے وقت کے مجھ کو...
  13. آصف شفیع

    سیلاب کی صورت حال پر ایک نظم- آصف شفیع

    آؤ توبہ کریں لمحہءفکر ہے یہ مرے دوستو! کتنی مشکل گھڑی آ پڑی قوم پر کیسی آفت ہے یہ، کیا مصیبت ہے یہ ہر طرف اک بلاخیز سیلاب ہے جو کہ رکتا نہیں ایک بپھرا ہوا بحرِ پر زور ہے کوئی گھر، کوئی دیوار یا کوئی بند اس کے آگے کسی پل ٹھہرتا نہیں اور کناروں کے جس کے کوئی حد نہیں سمت کی جس کا کوئی...
  14. آصف شفیع

    پھر اسی آنکھ کا نظارا ہے۔۔۔۔ آصف شفیع

    ایک غزل احباب کی نذر: پھر اسی آنکھ کا نظارا ہے جس کا نشہ ابھی اتارا ہے راز یہ دل پہ آشکارا ہے تو محبت کا استعارا ہے اک طرف ہجر کی مسافت ہے اک طرف درد کا کنارا ہے کس طرح میں جدا کروں تجھ کو تو مجھے جان سے بھی پیارا ہے دلِ بےتاب روٹھ مت جانا تو مرا آخری سہارا ہے زندگانی کا...
  15. آصف شفیع

    یہ بھٹکنا فقط بہانہ ہے۔۔ آصف شفیع

    ایک غزل احباب کی خدمت میںً۔ آرا کا نتظار رہے گا۔ غزل: یہ بھٹکنا فقط بہانہ ہے سب کے پیشِ نظر خزانہ ہے کل وہاں خاک بھی نہیں ہو گی آج میرا جہاں ٹھکانہ ہے میرے حصے میں آئے گا اک دن میری قسمت میں جو بھی دانہ ہے آندھیوں کو خبر نہیں شاید شاخ ہی میرا آشیانہ ہے آپ عادی پرانے وقتوں کے...
  16. آصف شفیع

    نعت --- آصف شفیع

    نعت کے کچھ اشعار پیشِ خدمت ہیں۔ احباب کی آرا کا انتظار رہے گا۔ زائروں کی ہے ہر گھڑی معراج سیرِ طیبہ ہے عشق کی معراج کس بلندی پہ لے کے آئی ہے آدمیت کو آپ کی معراج میزبانی کے استعارے ہیں روح، براق، آگہی، معراج ان کے روضے کو دیکھ آیا ہوں اس سے بڑھ کر نہیں کوئی معراج مل گئی مدحتِ...
  17. آصف شفیع

    عشق میں پہلے ڈرتے تھے بربادی سے ۔۔ آصف شفیع

    احبابِ محفل! آداب، آج کل محفل میں خاموشی کیوں ہے؟ بہت کم لوگ اپنا کلام پوسٹ کر رہے ہیں۔ کیا سب مصروف ہو گئے ہیں؟ چلیں اس خاموشی کو توڑتے ہیں اور میں اپنی کتاب " کوئی پھول دل میں کھلا نہیں" سے ایک غزل پیش کرتا ہوں۔ عشق میں پہلے ڈرتے تھے بربادی سے ہوتے ہوتے ہو گئے ہیں اب عادی سے پیار کہانی...
  18. آصف شفیع

    عرصہء زیست جاودانی ہے۔ آصف شفیع

    ایک غزل پیش خدمت ہے۔ عرصہء زیست جاودانی ہے یہ فقط میری خوش گمانی ہے دوست! اپنا وجود کیا معنی میں بھی فانی ہوں تو بھی فانی ہے اک محبت فنا نہیں ہوتی ورنہ ہر چیز آنی جانی ہے ہر کوئی مست ہے نمایش میں پیار کی کس نے قدر جانی ہے دیکھ ! تو بھی پلٹ کے آ جانا میں نے بھی تیری بات مانی...
  19. آصف شفیع

    خاموش چاہتوں کی مہک۔۔۔۔۔۔۔ باقی احمد پوری

    باقی احمد پوری صاحب کی ایک غزل احباب کیلیے۔ خاموش چاہتوں کی مہک اُس طرف بھی ہے جو میرے دل میں ہے وہ کسک اُس طرف بھی ہے کربِ شبانِ ہجر سے ہم بھی ہیں آشنا آنکھوں میں رتجگوں کی جھلک اُس طرف بھی ہے ہیں اِس طرف بھی تیز بہت، دل کی دھڑکنیں بیتاب چوڑیوں کی کھنک اُس طرف بھی ہے شامِ فراق...
Top