نتائج تلاش

  1. Tahir javed

    بلا عنوان

    ‏کیا زمانے تھے... کہ نہ بدن کے صرف ھونے کا علم نہ گمان کہ, ٹوٹ جانا کسے کہتے ھیں بارشوں کے ہمراہ دعاوں کی طرح اترے ھوے خواب اگلے دن بھی پلکوں میں اٹکے ھوے ملتے....
  2. Tahir javed

    اک اور دعا

    راہِ بےاختیار کی بے سرو سامانی میں اس سے پہلے کہ کہیں ٹہر جائیں نہ چاھتے ھوے یونہی مر جائیں اس سے پہلے کہ..... ناقبول دعاوں کے صدمے جان پہ اور بھی بھاری گذرنے لگیں آو اس ماحولِ بے ریا میں پھر سے بند آنکھیں کیے اک اور دعا کرتے ھیں بھول کر جسم کے بے طرح جھمیلوں کو راز روحوں کے فشاء کرتے ھیں
  3. Tahir javed

    تہی تہی سا مننظر

    میں جب گھر چھوڑ کے نکلہ تھا نیے رستوں پر جانتا تھا کہ ..... مہ و سال اب انہی رستوں پہ, منزلوں کی خواہش میں کچھ اس طرح سے گذار دوں گا اردگرد رینگتے سایوں کو روح کی روشنی ادھار دوں گا
  4. Tahir javed

    تہی تہی مناظر

    عمریں چاھے لمبی, چاھے چھوٹی ھوں پاوں پہ بندھے رستوں کو خود ھی آخر طے کرنا ھوتا ھے یہ وجود اگر نشانہء سنگِ باراںِِ شہر رھے گذرتے لمحوں کے ھر موسم میں اِس وجود کو اپنی روح کے گرد لپیٹے روز جینا روز مرنا ھوتا ھے
  5. Tahir javed

    پھر اسکی بات کرتے ھیں

    اک تعلق مساموں میں اجالے کیطرح بہتا ھے آنکھوں کی جنبشوں کی ساری حالتوں میں دھڑکے کیطرح عیاں رھتا ھے آدمی اک تصور میں, بیے حال سا فراغت کے لمحوں پہ بچھے وقتِ لطافت کے بستر پہ پڑا خود کو خود سے چھپانے میں لگا رھتا ھے.
Top