نتائج تلاش

  1. خ

    غزل برائے اصلاح: گزرے گا وقت ایسے سہانا حیات کا

    استادِ محترم جناب سر الف عین صاحب سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی اصلاح فرمائیں آنا حیات کا ہو کہ جانا حیات کا ہے دلربا بہت یہ فسانہ حیات کا دیر و حرم ہو یا کہ ہو آتش کدہ کوئی ہم کو کہیں ملا نہ ٹھکانہ حیات کا ملتا ہے کس تپاک سے وہ ساتھ موت کے کہتے تھے لوگ جس کو دوانہ حیات کا...
  2. خ

    غزل بغرضِ اصلاح: پھر سے یادِ یار میں جگنو بلائے جائیں گے

    استادِ محترم سر الف عین سے التماس ہے کہ برائے مہربانی اصلاح فرمائیں راحل بھائی و دیگر احباب سے گزارش ہے کہ اپنے مشورے سے نوازیں پردے اٹھائے جائیں گے پردے گرائے جائیں گے مانوس سے کچھ اجنبی چہرے دکھا ئے جائیں گے یہ بات جو محفل کی ہے محفل میں ہی کیجئے اسے باہر کسے معلوم کیا کیا گل کھلائے...
  3. خ

    ایک نظم بغرضِ اصلاح

    استادِ محترم سر الف عین سے برائے گزارش ہے کہ برائے مہربانی اصلاح فرمائیں اور دیگر احباب سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنی قیمتی مشوروں سے نوازیں زندگی بھی عجب تماشہ ہے اس تماشے میں ہر تماشائی مختلف رنگ و روپ لیتا ہے کوئی پاتا ہے سایہ دار درخت کوئی حصے میں دھوپ لیتا ہے کوئی ہے مبتلا ء جنگ و...
  4. خ

    غزل برائے اصلاح" ترکِ جفا کا اس نے ارادہ نہیں کیا

    جناب سر الف عین سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی غزل کی اصلاح فرمائیں ترکِ جفا کا اس نے ارادہ نہیں کیا میں نے بھی ترکِ عشق کا وعدہ نہیں کیا اس نے بھی بے رخی سے ہی دیکھا مری طرف میں نے بھی التفات زیادہ نہیں کیا ہم جیسے تھے سو بزم میں ویسے ہی آگئے پوشیدہ خود کو زیرِ لبادہ نہیں کیا واعظ کی بات...
  5. خ

    غزل برائے اصلاح :: جانے کیوں اضطراب میں ہم ہیں

    السلام علیکم استادِ محترم جناب الف عین صاحب امید ہے کہ اپ خیر و عافیت سے ہوں گے بہت دنوں کے بعد محفل پر حاضر ہوا ہوں ایک چھوٹی سی غزل اصلاح کیلئے پیش کرتا ہوں برائے مہربانی اصلاح فرمائیں چاہتوں کے سراب میں ہم ہیں اک مسلسل عذاب میں ہم ہیں یوں تو کہنے کو ہم بھی ہیں بیدار گرچہ غفلت میں...
  6. خ

    غزل برائے اصلاح::رات ہونے کو ہے اب رات کدھر جائے گا

    اساتذۂ اکرم سے اصلاح کی گزاش ہے برائے مہربانی اصلاح فرمائیں سر الف عین ، عظیم نہ فقط یہ کہ رگ و پے میں اتر جائے گا عشق اک زہر ہے پینے سے تو مر جائے گا دن تو گزرا ہے ترا صحرا نوردی میں مگر رات ہونے کو ہے اب رات کدھر جائے گا غم نہ کر اے دلِ ویراں کہ یہ کچھ روز کے بعد ہجر کا دریا جو چڑھا ہے...
  7. خ

    غزل برائے اصلاح :: اب جائیں ہم کہاں دلِ ویراں لیے ہوئے

    استاد محترم برائے مہربانی اصلاح فرمائیں الف عین عظیم درد اور یاس حسرت و حرماں لیے ہوئے رہتا ہوں اپنے ساتھ یہ ساماں لیے ہوئے ہم کاٹ لیں گے عمر فقیری میں لیکن جیتے نہیں کسی کا بھی احساں لیے ہوئے بزمِ جہاں سے گزرے نہ ہم نے کیا قیام آئے تھے ساتھ عمرِ گریزاں لیے ہوئے یہ سوچ کر کہ قیس کے ہوجائیں...
  8. خ

    غزل برائے اصلاح :مری حیات عجب اضطراب میں گزری

    اساتذۂ اکرم سے اصلاح کی گزارش ہے برائے مہربانی اصلاح فرمائیں الف عین سر عظیم یہ میری عمر عجب اضطراب میں گزری جو پورا ہو نہ سکا ایسے خواب میں گزری رہے ہیں جن میں خفا آدمی سے یزداں سے کچھ ایسی گھڑیاں بھی ہم پر شباب میں گزری سحر ہو کے بھی نہیں ان کا غم گسار کوئی کہ جن کی رات مسلسل...
  9. خ

    اصلاحِ سخن : ہم اس کا رنج نہ کرتے اگر تو کیا کرتے:

    اساتذۂ اکرم سے اصلاح کی گزارش ہے برائے مہربانی اصلاح فرمائیں نہ ہم یوں اشک بہاتے نہ التجا کرتے اگر نہ دل تری الفت میں مبتلا کرتے چلا گیا جو ہمیں چھوڑ کر خفا ہو کر ہم اس کا رنج نہ کرتے اگر تو کیا کرتے بدل رہا تھا زمانہ تو یہ بتاؤ ہمیں بدلتے ہم نہ اگر پھر تو اور کیا کرتے رہا...
  10. خ

    اصلاحِ سخن: خواب ہو جائیں گے ہم یا پھر گماں ہوجائیں گے،

    سر الف عین و دیگر اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن سب نشاں مٹ جائیں گے اور بے نشاں ہو جائیں گے ہیں حقیقت آج جو کل داستاں ہو جائیں گے بادشاہی اور امیری دو دنوں کی بات ہے بادشاہ و گدا سب پھر ہم عناں ہو جائیں گے کانپتے ہیں سب جزا کے دن کے اس دستور سے جرم خود بولیں گے...
  11. خ

    اصلاحِ سخن : لہجے کو تیرے دیکھا یہ حاجت نہیں رہی

    استاتذۂ اکرم سے اصلاح کی گزارش ہے مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن لہجے کو تیرے دیکھا تو حاجت نہیں رہی کہدے تو یہ کہ تیری ضرورت نہیں رہی اب خال خال ہی ہیں محبت سناش لوگ ظاہر ہے ایسے کاموں سے رغبت نہیں رہی مردہ سا ہو گیا ہے یہ تہذیب کا بدن اس کے لہو میں اب وہ حرارت نہیں رہی اب تو بہار...
  12. خ

    اصلاحِ سخن :جس کو رنج والم نے گھیرا ہے

    اساتذۂ اکرام سے اصلاح کی گزارش ھے بخش دے گا جسے وہ چاہے گا جس کو چاہے گا وہ عذاب کرے جس کو رنج و الم نے گھیرا ہے خواہشوں سے وہ اجتناب کرے خود بھی اپنا حساب کر لینا اس سے پہلے کہ وہ حساب کرے حق و باطل ہو چکا ہے عیاں جسے چاہے تو انتخاب کرے زندگی ایک امتحان ہے دوست رب تجھے اس میں کامیاب...
  13. خ

    اصلاحِ سخن " وہ خاک ہو گئے ان کا نشاں نہیں ملتا "

    مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فِعْلن الف عین سر اور دیگر اساتذہ کی خدمت میں اصلاح کیلئے ایک غزل کہیں مکین کہیں پر مکاں نہیں ملتا جہاں پہ غم نہ ہو ایسا جہاں نہیں ملتا جو تم سے پہلے یہاں اور لوگ رہتے تھے وہ خاک ہو گئے ان کا نشاں نہیں ملتا ترے فریب سے بچائے اب خدا ہم کو کہ تیرے لہجے سے تیرا...
  14. خ

    برائے اصلاح " ایک عالم ہے بے قراری کا"

    اساتذۂ اکرام سے اصلاح کی گزاراش ہے ایک عالم ہے بے قراری کا گویا موسم ہے آہ و زاری کا جس کا دل ہے غموں کا شیدائی اسے کیا شکوہ غم گساری کا عشق میں دل تو ہو گیا ایسے جیسے کاسہ کسی بھکاری کا بے خبر تھے جو ہم سمجھتے تھے عشق کو کھیل اک مداری کا ابتدا سے ہے دمِ آخر تک زندگی نام بے قراری کا
Top