نتائج تلاش

  1. A Basit

    سنگ مرمر اور سے تراشا ہوا یہ شوخ بدن

    سنگ مرمر سے تراشا ہوا یہ شوخ بدن اتنا دلکش ہے کہ اپنانے کو جی چاہتا ہے سرخ ہونٹوں پہ بھڑکتی ہوئی یہ رنگین شراب جس کو پی پی کہ بہک جانے کو جی چاہتا ہے نرم سینے میں دھڑکتے ہیں وہ نازک طوفاں جن کی لہروں میں اُتر جانے کو جی چاہتا ہے تم سے کیا رشتہ ہے کب سے ہے یہ معلوم نہیں لیکن اس حسن پہ مرجانے...
  2. A Basit

    الف سے اشعار

    الف۔ 1 اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کے قبول 2 اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد 3 اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات ہنس کر گزار یا اسے روکر گزار دے 4 آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا 5 اس...
  3. A Basit

    قوم پرستی

    پچھلی دو صدیوں سے جن تصورات نے دنیا کے اساسی نظام کو بڑی حد تک متأثر کیا ہے، ان میں ایک نیشنلزم یا قوم پرستی ہے۔ اس تصور کی ابتدا یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے بعد ہوئی۔ اس تصور کا حاصل یہ ہے کہ کسی مخصوص جغرافیائی حدود میں رہنے والے باشندے جو کسی نظام کے تحت زندگی بسر کر رہے ہوں، انھیں ایک قوم مانا...
  4. A Basit

    وہ شب و روز خیالوں میں

    وہ شب و روز خیالوں میں تماشا نہ کرے آ نہیں سکتا تو پھر یاد بھی آیا نہ کرے ایک امید کی کھڑکی سی کھلی رہتی ہے اپنے کمرے کا کوئی ، بلب بجھایا نہ کرے میں مسافر ہوں کسی روز تو جانا ہے مجھے کوئی سمجھائے اسے میری تمنا نہ کرے روز ای میل کرے سرخ اِمج ہونٹوں کے میں کسی اور ستارے پہ ہوں ، سوچا نہ...
  5. A Basit

    Abdul Basit

    محبت کے لیے آیا ہوں میں دنیا کی محفل میں محبت خون بن کر لہلہاتی ہے مرے دل میں محبت ابتدا میری محبت انتہاء میری محبت سے عبارت ہے بقاء میری فنا میری محبت ہی میری دولت محبت ہی جوانی ہے محبت گر نہ ہو ویران میری زندگانی ہے اختر شیرانی
  6. A Basit

    کلیم عاجز

    منہ فقیروں سے نہ پھیرا چاہیے یہ تو پوچھا چاہیے کیا چاہیے چاہ کا معیار اونچا چاہیے جو نہ چاہے انکو چاہا چاہیے ہم تو کچھ چاہے ہیں تم چاہو ہو کچھ وقت کیا چاہے ہے دیکھا چاہیے بے رخي بھی ناز بھی انداز بھی چاہیے لیکن نہ اتنا چاہیے ہم جو کہنا چاہتے ہیں کیا کہیں آپ کہہ لیجے جو کہنا چاہے بات چاہے بے...
  7. A Basit

    دل زمانہ ہوا شاداب نہیں شاد نہیں

    دل زمانہ ہوا شاداب نہیں شاد نہیں کب بہار آئی تھی اس باغ میں کچھ یاد نہ نشیمن نہ گلستاں کا پتہ چلتا ہے اب کوئی خاک نہیں ایسی کو برباد نہیں جو تمہارے لئے بے نام و نشاں ہوکے رہا میں وہی ننگ زمانہ ہوں تمہیں یاد نہیں کرلی اس فن میں بھی گلچیں نے مہارت پیدا سن رہے تھے کہ چمن میں کوئی صیاد نہیں
Top