نتائج تلاش

  1. س

    غزل برائے اصلاح

    محترم الف عین سر محترم محمد احسن سمیع : راحل سر دنیا ترے زندان میں معمور ہوئے ہیں ہم پیکرِ خاکی میں جو محصور ہوئے ہیں نفرت کے پجاری ہیں جو نفرت کو کریں عام ہم عشق کی تبلیغ پہ مامور ہوئے ہیں ناپید ہوئے جاتے ہیں آدابِ محبت کچھ اور ہی اب عشق کے دستور ہوئے ہیں یوں ڈھوتے ہیں بوجھ عشق میں ہم...
  2. س

    غزل برائے اصلاح

    محترم الف عین سر اصلاح کا طالب ہوں غزل دیکھا ہے سر بام کسی چاند کو جب سے مانوس ہوئے جاتے ہیں تاریکی شب سے بیتاب سدا رہتا ہے یادوں میں کسی کی امید بھی کیا ہو دل آزار طلب سے کردار سے اپنے ہے یہ توقیر ہماری ہم وہ نہیں جو جانے گئے نام و نسب سے زندہ ہیں تو تکلیف کا احساس ہے لازم کیوں کھائے...
  3. س

    غزل برائے اصلاح

    اس قدر بڑھ گئی ہے تنہائی بار لگنے لگی ہے بینائی میری امید ہے تو صرف خدا بخدا میں نہیں ہوں ہرجائی ایک تکمیل آرزو کے لیے ہم نے کی آپ اپنی رسوائی حال کہتا ہے اپنا اشکوں میں دل کو آتی نہیں ہے گویائی مستعد ہے ہمارے قتل پہ وہ جن کو تھا دعویٰ مسیحائی دل بہ امید تو رہا ہر دم کوئی امید بر نہیں آئی...
  4. س

    غزل برائے اصلاح

    الف عین سر زخم دیتا ہے بجز زخم یہ کیا دیتا ہے یہ زمانہ یہی انعام وفا دیتا ہے آنکھ مشکل سے جو لگتی ہے کبھی راتوں کو درد آکر مرے شانوں کو ہلا دیتا ہے سب کی تقدیر میں غم ہے امرا ہو کے غریب یہ وہ دولت ہے جو ہر اک کو خدا دیتا ہے وہ مسیحائی بھی کرتا ہے بہ انداز دگر اپنے بیمار کو مرنے کی دعا دیتا...
  5. س

    غزل برائے اصلاح

    محترم الف عین سر اصلاح کا طالب ہوں غزل برائے اصلاح فائدہ کیا ہے مسکرانے سے غم چھپے ہیں کہیں چھپانے سے کیا ہی اچھا ہو گر دلِ برباد باز آجائے ورغلانے سے پوچھتے ہو حقیقت ِ دنیا کم نہیں ہے کسی فسانے سے گھونٹ ڈالا ہے خواہشات کا دم بچ گئے ہم فریب کھانے سے تلخیاں بھول جاؤ ماضی کی فائدہ کیا ہے دل...
  6. س

    غزل برائے اصلاح

    خسارے پر خسارا کررہے ہیں محبت ہم دوبارہ کررہے ہیں فراوانی غموں کی ہورہی ہے زمین دل کشادہ کررہے ہیں امید صبحِ وصل یار پر ہم شب فرقت گوارا کررہے ہیں انہیں طوفاں کا اندازہ ہو کیسے جو ساحل سے نظارا کررہے ہیں زمانے بھر سے ہیں ان کے مراسم ہمیں سے بس کنارہ کررہے ہیں کہاں باقی رہیں آنکھوں میں آنسو...
  7. س

    چند شعر برائے اصلاح

    دکھلاؤں گا میں حال دل بیقرار کا پوچھے جو کوئی طولِ شبِ انتظار کا آجائے وہ تو گردش ایام روک دے احسان کیوں اٹھائیے لیل و نہار کا مرجھا گیا ہے دل بھی مرا مثل گل مگر ہے مطمئن کہ آئے گا موسم بہار کا جب چاہے ان کی یاد میں ہوجائے مضطرب یہ اختیار ہے دلِ بے اختیار کا یہ میں نے کب کہا رخ زیبا...
  8. س

    غزل برائے اصلاح

    نہ بات مانتا میری نہ بات مانی تھی کہ دل نے پہلے سے ہی خودکشی کی ٹھانی تھی یہ بہ رہیں تھے کسی بے وفا کی فرقت میں اے چشم یہ ترے اشکوں کی رائیگانی تھی میں سارا وقت مرا شاعری کو دےدیتا شکم کی آگ بھی مجھ کو مگر بجھانی تھی وہ لےرہا تھا ابھی مجھسے انتقام مگر میں جانتا تھا عداوت بڑی پرانی...
  9. س

    غزل برائے اصلاح

    الف عین یہ حقیقت ہے کہ وہ شخص وفادار نہ تھا ہاں مگر میں بھی وفا کرنے کو تیار نہ تھا عرصۂ ہجر بڑا تھا پہ یہ دشوار نہ تھا دل تو خود ہی مرا آمادۂ دیدار نہ تھا شہرِ بے حس میں اسیرانِ ہوس تھے سارے اے محبت ترا کوئی بھی گرفتار نہ تھا میرے آنسو، مرا غم اور مری وحشت کے سوا ہجر کی رات کوئی میرا مددگار...
  10. س

    غزل برائے اصلاح

    منزل قریب راہ بھی آساں ہو ڈر نہ ہو کیا لطف اس سفر میں کہ جو پر خطر نہ ہو میں بس یہ چاہتا ہوں کہ اسکی نگاہ میں کوئی بھی شخص میرے سوا معتبر نہ ہو میں ہوں سیاہئ شبِ ہجراں میں پرسکوں اے وقت تھم خیال رہے کہ سحر نہ ہو اک سمت بے وفائی تری اک طرف ہے تو دل کشمکش میں ہے کہ کدھر ہو کدھر نہ ہو تیری دعا...
  11. س

    غزل برائے اصلاح

    چاہ کر بھی نہ کوئی ان سے گلا رکھتا ہوں اپنے جذبات کسی طرح دبا رکھتا ہوں اپنی تکلیف کا کرتا نہیں اظہار کبھی اشک آنکھوں میں تو غم دل میں چھپا رکھتا ہوں سرکشی اس کی بھلا کیسے سہوں میں ہر بار میں بھی انسان ہوں کچھ میں بھی انا رکھتا ہوں لذتِ درد ہے وہ جس نے مجھے روکا ہے ورنہ...
  12. س

    غزل برائے اصلاح

    چاہ کر بھی نہ کوئی ان سے گلا رکھتا ہوں اپنے جزبات کسی طرح دبا رکھتا ہوں اپنی تکلیف کا کرتا نہیں اظہار کبھی اشک آنکھوں میں تو غم دل میں چھپا رکھتا ہوں سرکشی اس کی بھلا کیسے سہو میں ہر بار میں بھی انسان ہوں کچھ میں بھی انا رکھتا ہوں لذتِ درد ہے وہ جس نے مجھے روکا ہے ورنہ میں...
  13. س

    غزل برائے اصلاح

    چاہ کر بھی نہ کوئی ان سے گلا رکھتا ہوں اپنے جزبات کسی طرح دبا رکھتا ہوں اپنی تکلیف کا کرتا نہیں اظہار کبھی اشک آنکھوں میں تو غم دل میں چھپا رکھتا ہوں سرکشی اس کی بھلا کیسے سہو میں ہر بار میں بھی انسان ہوں کچھ میں بھی انا رکھتا ہوں لذتِ درد ہے وہ جس نے مجھے روکا ہے ورنہ میں...
  14. س

    شعر برئے اصلاح

    ہے اب تلک اِس دلِ شکستہ میں یار کی وہ حسین یادیں ہے اس لیے اب بھی مثلِ گلشن یہ دل خرابہ ہوا نہیں ہے
  15. س

    شعر براٸے اصلاح

    خنجر سے نہ لیا نہ کبھی تیغ و تیر سے کام ہم نےبس لیا ہے قلم کی صریر سے
  16. س

    غزل برائے اصلاح

    سفر طویل ہے اور راہبر کوئی بھی نہیں ہمارے ساتھ میں اب ہمسفر کوئی بھی نہیں تمہارے ہجر میں دن رات میں تڑپتا ہوں کیا میرے حال کی تم کو خبر کوئی بھی نہیں؟ تمہارا دل ہے یا پتھر یہ مجھ کو بتلادو کیوں میری آہ کا اِس پر اثر کوئی بھی نہیں یہ درد ہجر ہے اس کی وصالِ یار سوا زمانہ بھر میں دوا کارگر کوئی...
Top