نتائج تلاش

  1. عبد السمیع عرف عاصمؔ

    برباد گلستاں کرنے کو، صرف ایک ہی الّو کافی تھا، ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہوگا۔

    برباد گلستاں کرنے کو، صرف ایک ہی الّو کافی تھا، ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہوگا۔ اس شعر کی روشنی میں بنے ہمارے کچھ تجزیاتی اشعار۔۔۔ برائے تنقید و اصلاح۔۔۔ مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن حیران کن ترقی پر گامزن وطن ہے، الّو بھی پل رہے ہیں، آباد بھی چمن ہے۔ آزاد بھیڑئیے ہیں، خوراک...
  2. عبد السمیع عرف عاصمؔ

    مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

    کوئی تعریف کر جائے تو اکثر پھول جاتا ہوں، میں بھولا ہوں، ستم ڈھایا ہوا بھی بھول جاتا ہوں۔ ہر اک نعمت پہ نازاں ہوں فقط اپنی ہی محنت پر، لگی جنکی دعائیں ہو، انہیں کو بھول جاتا ہوں۔ خدا ڈھا دے مری یہ کاش اب ثابت قدم فطرت ، قسَم کھاتا ہوں توبہ کی قسَم ہی بھول جاتا ہوں۔ ہے غرّاتا تو کتّا بھی، جو...
  3. عبد السمیع عرف عاصمؔ

    فاعلن مفاعیلن

    ( فاعلن مفاعیلن ) رہبروں کی شکلوں میں، رہزنوں کی کثرت تھی، بد گماں کِیا مجھ کو، رہبَری سے اپنوں کی۔ رہزنی کا تو خدشہ، ہر وقَت ہی منڈلایا، چھانتا بھی گر (میں) سانپ آستیں سے کِتنوں کی۔ مَر کے بھی نہ مِٹ پائے، حق پہ جاں بحَق جو تھے، قاتلوں کو ہیبت تھی، وحشتوں سے سپنوں کی۔ چل پڑا تھا...
  4. عبد السمیع عرف عاصمؔ

    فعولن فعولن فعولن فعولن جلی جا رہی ہے، دیا اب میری جو، یہی آخری ہے، ہے باقی نہ سمجھو۔

    فعولن فعولن فعولن فعولن جلی جا رہی ہے، دیا اب میری جو، یہی آخری ہے، ہے باقی نہ سمجھو۔ جو لؤ جل چکی ہے، فکر اسکی چھوڑو، جو باقی غنیمت، ہے نعمت نہ سمجھو۔ یہ دولت ہے فانی، مگن جس میں تو ہے، جہنم بنے گر، حقیقت نہ سمجھو۔ سلامت ہے جنت، لگی جسکی کنجی، ہیں ماں باپ نعمت، مصیبت نہ سمجھو۔ جو...
  5. عبد السمیع عرف عاصمؔ

    مَیِّت کی داستان

    نہلايا جا رہا ہوں، کفنایا جا رہا ہوں۔ ڈولے میں پهر مرے میں، لے جایا جا رہا ہوں- بند پڑ گئی ہیں آنکهیں، چپ چاپ میرے لب ہیں- کیسی یہ کیفیت میں، بتلایا جا رہا ہوں- ہاتهوں میں دم نہیں ہے، پیرؤں میں جاں نہیں ہے- غسّال کے میں ہاتهوں، پلٹایا جا رہا ہوں- نازک میرا بدن تها، اونچا رہن سہن تها-...
  6. عبد السمیع عرف عاصمؔ

    ٹیکنالوجی اور ہم

    زمانہ نے خوب ترقی دکھائی ٹیکنالوجی میں ہم تو مست ہیں گھر، بال، بچے پالو جی میں خلاء کی خوب رنگینیاں دیکھی ہیں زمانہ نے مگر کچھ لوگ مر گئے ٹیکنالوجی آزمانے میں کچھ اس قدر پر نکل آئے انساں کے کہ پہنچا چاند پر حواس کھو بیٹھا، جب نگاہ ڈالی آسمان پر خدا کی قدرت کا اندازہ ہو گیا تھا اسکو...
  7. عبد السمیع عرف عاصمؔ

    حمد باری

    رب کی رضا میں، جینا مرنا، کام کچھ ایسا، کرنا چاہوں، کرنا چاہوں، کر نہ پاؤں، کر سکوں تو کیا کروں۔ قوی ہے مجھ پر، نفس کا قابو، صداء ضمیر کی، سننا چاہوں، سننا چاہوں، سن نہ پاؤں، سن سکوں تو کیا کروں۔ ہے دنیا تو، محبسِ مؤمن، سختی اس کی سہنا سیکھوں، سہنا چاہوں، سہہ نہ پاؤں، سہہ سکوں تو کیا...
Top