نتائج تلاش

  1. س

    دبیز ہوتی ہوئی اک خفا خفا سی ہنسی

    دبیز ہوتی ہوئی اک خفا خفا سی ہنسی فراق کرتے ہوئے چاند پہ ذرا سی ہنسی مجھے بجانب وحشت بلا رہیں ہیں پھر وہ رہ نما سی نگاہیں وہ راستہ سی ہنسی ٹھہرتے وقت میں طوفان لانے لگتی ہے شدید حبس میں چلتی ہوئی ہوا سی ہنسی ہمارے نام پہ ہونا وہ رونقوں کا ظہور ہمیں پکارتے لب پر وہ خوش نما سی ہنسی غریب شخص کو...
  2. س

    معاش چھوڑے تو جائیں پلٹ کے گھر اپنے

    معاش چھوڑے تو جائیں پلٹ کے گھر اپنے تمہارا ہجر منائیں گے ڈٹ کے گھر اپنے وصال یار بھی رکھتے ہیں آنکھ میں اپنی حساب ہجر بھی جاتے ہیں رَٹ کے گھر اپنے دمِ فراق سہولت ہے یاد شعلہ کی ہے سرد رات سو رہیے سِمَٹ کے گھر اپنے تو میرے جسم نہیں روح تک رسائی چاہ پہنچنا ہے تجھے اب سب سے کَٹ کے گھر اپنے وہ...
  3. س

    نحیف جسم پہ ہجرِگران ٹوٹ پڑا

    نحیف جسم پہ ہجرِگران ٹوٹ پڑا میں ماند پڑرہا تھا آسمان ٹوٹ پڑا میں بوسہ گاہ تھا لیکن کیا نہ تونے خیال مزار نور پہ توبے کران ٹوٹ پڑا میں تیری مانگ ستارے سے بھر رہا تھا مگر عدو کے ساتھ ہوا آسمان ٹوٹ پڑا تمہارے عشق کی دولت میں تھی چمک اتنی خوشی کو لوٹنے سارا جہان ٹوٹ پڑا حسین وار سی آنکھوں نے رخ کیا...
  4. س

    درد اٹھ کے دل کی جانب مستقل جاتا ہے روز

    درد اٹھ کے دل کی جانب مستقل جاتا ہے روز لڑکھڑاتا بین کرتا مضمحل جاتا ہے روز اک صدا تجسیم پاکر اس گلی جاتی ہے روز قافلہ اک التجا پر مشتمل جاتا ہے روز چھوٹے بچوں کو گلی میں مسکراتا دیکھ کر بے دلی کے زخم کو مرہم بھی مل جاتا ہے روز پھول جیسے دو لبوں پر کھل رہی ہو جب ہنسی دل کے صحرا میں اچانک پھول...
  5. س

    ( برائے اصلاح )یہ بد نصیب شرافت میں مرنے والاہے

    یہ بد نصیب شرافت میں مرنے والاہے یہ چپ رہے گا مروت میں مرنے والاہے بڑے صحافی تو سکوں میں تل رہے ہوں گے یہ چھوٹا راہ صداقت میں مرنے والاہے ہمارے تھر میں ہے یورپی سہولتیں پر غریب آپ کی جنت میں مرنے والاہے رکارڈ روم میں کوئی عدم تعاون پر لگی جو آگ عمارت میں مرنے والاہے نقیب روز مریں گے ہماری...
  6. س

    براے اصلاح

    خواب کے اس جہاں سے گزر جائیں گے یعنی ہم آسماں سے ہو کر جائیں گے خوش خرامی کریں آپ دل میں مرے پاؤں نازک سے لے کر کدھر جائیں گے دیکھ کر دشت سا شہر دل میں سکوں کیا خبر تھی ہمیں آپ ڈر جائیں گے آپ اپنا پتہ دیں نہ دیں خیر ہے دل جدھر جائے گا ہم ادھر جائیں گے ہم ادھر جائیں گے جان سے بے خبر جان ہی جائے...
  7. س

    آیا جو میرے سامنے تو چھوڑ کے نہ جا مجھے

    آیا جو میرے سامنے تو چھوڑ کے نہ جا مجھے میں اپنے اندر ہو کہیں آواز دے بلوا مجھے تو آنکھ سے اوجھل نہیں گر چہ ہے دل غافل نہیں پہلو بہ پہلو دم بہ دم دکھتا ہے تو ہر جا مجھے میں ہوں خیالِ باختہ تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں سمٹا رہوں خود میں کہیں کردے کہیں یکجا مجھے مجھ کو پیاسا مار کر کربل بنا نا...
  8. س

    تھام کر ہاتھ بات کی اس نے

    تھام کر ہاتھ بات کی اس نے اف رے کیا واردات کی اس نے مجھ بے چارے پہ دید کی دولت رفتہ رفتہ 'زکوٰۃ کی اس نے شمس چہرے سے دن نکالا پھر لیل زلفیں تھیں رات کی اس نے سرخ ڈوروں سے نین کے باندھا شیریں لہجے سے مات کی اس نے وہ جو مطلب سے بات کرتا تھا آج مطلب کی بات کی اس نے اتصالی ہو روح سے ایسے...
  9. س

    اب عاشقی میں رب کو گواہ کر چکے ہیں ہم

    اب عاشقی میں رب کو گواہ کر چکے ہیں ہم یعنی کہ تجھ کو ٖحرف دعا کر چکے ہیں ہم شعلوں سے اب تو عہد وفا کر چکے ہیں ہم اب عشق کو ہی اپنی دواکر چکے ہیں ہم یعنی تمہاری قید سے باہر نہیں ہے کچھ یعنی انا کو خود سے جدا کرچکے ہیں ہم یعنی تمہارے بعد ہے دنیا میں کچھ نہیں تیری بقا میں اپنی بقا کر چکے ہیں...
  10. س

    شوق کا مرحلہ بھی ٹوٹ گیا

    شوق کا مرحلہ بھی ٹوٹ گیا ضبط اور ضابطہ بھی ٹوٹ گیا امن کی فاختہ بھی روٹھ گئی اس کا وہ گھونسلہ بھی ٹوٹ گیا چھڑ گئی جنگ دونوں ملکوں میں خواب اک ناشتہ بھی ٹوٹ گیا کہکشاں چھوٹتے ہی یادوں کی وصل کا راستہ بھی ٹوٹ گیا یاد کی خانقاہ ٹوٹ گئی سانس کا سلسلہ بھی ٹوٹ گیا آپ کیوں آگئے ہیں...
  11. س

    جستجو تھی کہ دیکھ لیں جنت

    جستجو تھی کہ دیکھ لیں جنت بات پھر حور تک چلی آئی بقعہ تھا نور کا سو حیرانی جو چلی طور تک چلی آئی عشق انجام سے نہیں ڈرتا موت منصور تک چلے آئی نور کے رنگ کے تدارک میں خرد منشور تک چلے آئی دوریاں تھیں سو وہ مٹانے کو خود سے بھی دور تک چلے آئی ان کے چہرے پہ بات چل نکلی بات پھر نو ر تک چلی آئی
  12. س

    مدتوں کوستی پشیمانی ÷ برائے اصلاح

    مدتوں کوستی پشیمانی عشق تھا وہ کہ بس تھی نادانی انسیت ہو گئی تھی ان سے بھی جن کی فطرت نہیں تھی انسانی بے اماں درد کے جزیروں میں اک تری یاد اور تھی ویرانی دیرپا حسن کا ہے افسانہ جاوداں عشق میں ہے ناکامی چلتے رہیے ہوا کے رخ پر آپ چھوڑ بھی دیجیے نا من مانی میری یہ التجا رہی خود سے کیجیے...
  13. س

    نور سا چھا گیا چاندنی ہو گئی (براے اصلاح)

    نور سا چھا گیا چاندنی ہو گئی مصطفی آگئے روشنی ہو گئی مجھ کو محبوب ہیں رب کے محبوب وہ ان سے نسبت مری قیمتی ہو گئی عشق احمد کی جب راہ پر ہم چلے عقل کی راہ خود آگہی ہو گئی عشق سرکا ر کا دیکھیے تو اثر در پہ حاضر مرے ہر خوشی ہو گئی ہم نے جب کی دعا پڑھ کر ان پر درود اس کی مقبولیت لازمی ہو گئی آپ کی...
  14. س

    ہم نے سن رکھا ہے کہ کچھ مے کش

    ہم نے سن رکھا ہے کہ کچھ مے کش ہوش میں رہنے کو ہی پیتے ہیں تم نے دیکھا ہے کر بلا والے کتنی صدیوں سے کیسے جیتے ہیں یاد کا اک دیا ہے جلتا روز دل میں رکھے کئی فلیتے ہیں بات چل نکلی ہے وفاؤں کی ہم ہیں کوفہ کے لب کو سیتے ہیں کیا عجب ہے کہ بھائ یوسف کے ہیں تو دشمن مگر چہیتے ہیں
  15. س

    زندگی

    زندگی ----------------------------- بدن کے قفس میں سنوارے گئے خدا کی زمیں پر اتارے گئے بھلے زلف ماں کی پریشاں رہی مرے نین نقشے نکھارے گئے ہماری خوشی کا بھی سوچا گیا سبھی ہم پہ وارے نیا رے گئے ہنر زندگی کا سکھایا گیا مرے آج کل بھی سنوارے گئے جو اچھا برا تھابتایا گیا الگ بات پھر ہم بگاڑے...
  16. س

    براے اصلاح اک ہاتھ میں تھا برش تو اک ہاتھ میں سگار

    اک ہاتھ میں تھا برش تو اک ہاتھ میں سگار غم کو اسی دھویں میں اڑاتا چلا گیا اور اک غزل میں نے لکھی پھر اس کے واسطے جو کچھ لکھا تھا پھر وہ بناتا چلا گیا تھا اس نگار ناز کا جوخاکہ ذہن میں پرچھائیاں تھیں رنگ گراتا چلا گیا میرے خیال میں تھی وہ ناراض سی پری تصویر میں اسے میں مناتا چلا گیا سید علی رضوی
  17. س

    قصہ رنگین زندگانی کا

    قصہ رنگین زندگانی کا رنگ پھیلا ہوا ہے پانی کا زندگی کی کتاب میں سب سے ہے بڑا باب رائگانی کا جن کو غم روزگار لاحق ہے کیا کریں گےوہ اس جوانی کا عشق جذبے کو حسن محتاجی حسن کو شوق جاودانی کا آپ برسے نہیں ، تھے بادل آپ شکریہ! ایسی مہربانی کا یہ بڑی دل پزیر لگتی ہے مول کیا دو گے اس کہانی کا
  18. س

    تصور کی طرح تھے ان کے دل میں

    تصور کی طرح تھے ان کے دل میں وہ جوں جیسے نکالے جاچکے ہیں مرے پیکر سے چھن کر اس طرف بھی کئی سو تیر بھالے جاچکے ہیں ترے کوچے سے ہم رخصت نا ہوتے تھے جنت میں نکالے جاچکے ہیں ہمارے ضبط کے ہاتھوں ہمارے کئی دریا سنبھالے جاچکے ہیں بہت ہلکے پڑے ہیں جو یہ شانے ہمارے سر اچھالے جاچکے ہیں
  19. س

    عقل تھی آگہی نے ماردیا

    14 hrs · عقل تھی آگہی نے مار، دیا دید کو روشنی نے ماردیا ایک بے کس تھا جس کے خوابوں کو اس کی بے چارگی نے مار دیا ہم نے چاہا کے بات بن جائے زیست کی بے رخی نے مار دیا دیکھ کر پانی مر گیا پیاسا اس کو سچی خوشی نے مار دیا۔ تھا جو اپنا بنا وہ انجانا پھر اسی اجنبی نے مار دیا کیا تعجب کی کوئی بات نہیں...
  20. س

    نین سے اور نقاب سے نفرت

    نین سے اور نقاب سے نفرت رخ پہ حائل حجاب سے نفرت سب کو برباد کر دیا جس نے کیجیے نا اس شراب سے نفرت تم تو ہلکان کرکے جاؤ گے ہے مجھے اضطراب سے نفرت جس کی خوشبو مجھے نہیں ملتی گل سے نفرت گلاب سے نفرت رخ روشن سے دھوکے کھائے ہیں ہے مجھے ماہ تاب سے نفرت وہ جو مجھ پر برس نہیں سکتا ہے مجھے اس...
Top