نتائج تلاش

  1. آ

    برائے اصلاح

    کتنے دلکش کتنا پیارا نیلے امبر کا نظارہ حدِ نظر تک پھیلا ہوا ہے سر پہ ہمارے چھایا ہوا ہے کوئی ایسا علاقہ نہیں ہے جس پر اس کا سایہ نہیں ہے سورج ہو یا چاند ستارے ہر اک اس کا حسن نکھارے بادل اس پر جب چھاتے ہیں رنگ نیا اک دکھلاتے ہیں ہو کے سوار ہوا پر بادل رنگ جمائیں خلا پر بادل اجلے بادل...
  2. آ

    برائے اصلاح

    ظلم غزہ میں جو برپا ہے دیکھ کے دل یہ لرز اٹھاہے پھول سے بچے مسلے جائیں دیکھ درندے بھی شرمائیں آنکھ اشکبار نہ ہو تو کیا ہو سینہ فگار نہ ہو تو کیا ہو دیکھ سکیں ہم تاب نہیں ہے تم سہتے ہو جواب نہیں ہے مشق ستم تم پر ہے جاری جرات کو ہے سلام تمھاری تم تو حقدار ہوئے جنت کے اور اسرائیلی لعنت کے...
  3. آ

    برائے اصلاح

    ہم کہ احسان اٹھاتے ہوئے مر جاتے ہیں آنکھ محسن سے ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں ہم کسی ہاتھ کو لوٹا نہیں سکتے خالی لب پہ انکار کو لاتے ہوئے مر جاتے ہیں ہر قدم پر کوئی سمجھوتہ ہمیں کرنا پڑے زندگی تجھ کو بچاتے ہوئے مر جاتے ہیں خون ہوتا ہے پتنگوں کا ہمارے باعث ہم چراغوں کو جلاتے ہوئے مر جاتے ہیں شہر...
  4. آ

    اصلاح سخن

    سورج جس کا نام ہے بچو قدرت کا انعام ہے بچو جگ مگ کرتا شرق سے نکلے ایک اجالا،ہر سو بکھرے کاہِ کشاں یاچاند ستارے اس کے آگے ماند ہیں سارے اس کی کرنیں جب پڑتی ہیں فصلیں اگتی اور پکتی ہیں پھول حسیں ہیں اس کے دم سے پھل شیریں ہیں اس کے دم سے یہ ہے عطا اللہ میاں کی رونق ہے یہ سارے جہاں کی جلوے اس...
  5. آ

    برائے اصلاح

    کام کوئی بھی چھوٹا نہیں ہے کم تر کوئی بھی پیشہ نہیں ہے پیشے سے جو وفا کرتا ہے رتبہ اسی کا ہوتا بڑا ہے رزقِ حلال کماتا ہے جو سب سے عزت والا ہے وہ ذات نہیں ہے پیشہ کسی کا یہ تو وسیلہ ہے روزی کا کاروبار جہاں چلتے ہیں ہم سارے تو کل پرزے ہیں خاص ہیں سب کوئی عام نہیں ہے چھوٹا کوئی بھی کام نہیں...
  6. آ

    برائے اصلاح

    کوئی حسرت نہ کوئی غم ہے باقی خلش دل کی مگر پیہم ہے باقی ٹپک پایا نہ آنکھوں سے ہماری مچلتا سینے میں ماتم ہے باقی نہ وہ پروانے کے جیسی تڑپ ہے نہ اب وہ شوق کا عالم ہے باقی اثر دل پر نہیں کچھ موسموں کا یہاں بس یاس کا موسم ہے باقی سخن ور ہم ہوئے تیرے سبب سے ترا پر ذکر اب کم کم ہے باقی ابھی گا...
  7. آ

    برائے اصلاح

    اگرچہ دل شکستہ بھی نہیں ہے مگر یہ ہنستا بستا بھی نہیں ہے اتر جاتے ہیں کیسے لوگ دل میں بظاہر کوئی رستہ بھی نہیں ہے تمھیں دعوی بھی ہے دیوانگی کا تمھارا حال خستہ بھی نہیں ہے ہمیں محروم رکھا دھوپ سے بھی وہ بادل جو برستا بھی نہیں ہے طلب ہے سنگ کی شوریدہ سر کو کوئی آواز کستا بھی نہیں ہے برا...
  8. آ

    برائے اصلاح

    رسم دنیا نبھانا بھول گئے شکل تک وہ دکھانا بھول گئے ہم کو عادت ہے بھول جانے کی سو اسے ہم بھلانا بھول گئے دیکھ کر ایک پھول ہنستا ہوا ہم پرند آشیانہ بھول گئے شعر کہنے کو ہم ترستے ہیں آپ کیوں دل دکھانا بھول گئے کیا کمی آ گئی جنوں میں مرے لوگ پتھر اٹھانا بھول گئے ایک صورت تھی مسکرانے کی آپ صورت...
  9. آ

    برائے ااصلاح

    یہ نہ سمجھو بدل گیا ہوں میں بات یہ ہے سنبھل گیا ہوں میں وہ کہ مانندِ شمعِ روشن تھی مثلِ پروانہ جل گیا ہوں میں لطف گل گشت میں نہ آیا جب سوئے صحرا نکل گیا ہوں میں روک پائی، نہ آبلہ پائی اس تلک سر کے بل گیا ہوں میں کیا سروکار دل کو دشت سے ہے ڈھونڈے اس کا حل گیا ہوں میں بیج سے دکھ کے شاعری...
  10. آ

    برائے اصلاح

    ہم آشفتہ سروں نے ٹھانی ہے تند ہوا میں شمع جلانی ہے راہِ یزید اپنا تو پر ہم نے رسمِ شبیری دہرانی ہے ایسے مرو کہ امر ہو جاؤ تم خوف اجل کیا ایک دن آنی ہے ڈر پھولوں میں ہے پھر کیوں مالی کا کام ہی جب اس کا نگرانی ہے اس کو عبث تم کھونا مت یارو در یتیم یہ دور جوانی ہے تشنہ لبی جھیلی ہے کچھ اتنی...
  11. آ

    برائے اصلاح

    موسم آیا فصل گل کا چل ! کہ چلیں ہم سوئے صحرا آیا جھونکا مست ہوا کا چھو کے کوئی پھول شگفتہ شعلہِ وحشت پھر بھڑکے گا ( دور چلے گا، پھر وحشت کا) چاک گریباں ہو گا اپنا چل ! کہ چلیں ہم سوئے صحرا یاد تمھاری، خواب تمھارے اور سوا کیا پاس ہمارے رات گزاری گن کے تارے دن صحرا گردی میں گزارا چل! کہ چلیں...
  12. آ

    برائے اصلاح

    پہلے یہ دل خاک ہوتا ہے پھر گریباں چاک ہوتا ہے سو میں پی لیتا ہوں اشکوں کو بہتا پانی پاک ہوتا ہے پیاسا مارے دشت میں لاکے ہجر وہ سفاک ہوتا ہے مرنا اچھا سوختہ دل کا جینا المناک ہوتا ہے جسم بعد از مرگ ہو لیکن جیتے جی دل خاک ہوتا عقل سکھلاتی ہے اندیشہ عشق تو بےباک ہوتا ہے ٹھوکریں عمران کھانے...
  13. آ

    برائے اصلاح

    میرے من کو بھائے گاؤں اور پیڑوں کی ٹھنڈی چھاؤں چھاؤں ہے ان کی ایسی پیاری عمر بتادوں بیٹھ کے ساری شام سویرے پنچھی گائیں من کو بھائیں، دل کو لبھائیں پیڑوں پر پھل کی سوغاتیں اور پرندوں کی باراتیں چشمے،جھرنے آبِ رواں ہے دیکھو کیسا خوب سماں ہے ایسے نطارے کہاں شہروں میں گرد ،غبار، دھواں شہروں...
  14. آ

    برائے اصلاح

    کوئی خواہش نہ حرص باقی ہے دل سے دنیا نکال پھینکی ہے لطف آئے نہ اب کسی شے میں بے دلی سے یہ زیست کرنی ہے سچ کہوں تو بڑے سکوں سے ہوں جب سے دل حسرتوں سے خالی ہے جانے کتنے دکھوں کا درماں ہے کہ یہ جو مرگِ نا گہانی ہے سو نہیں کی دوائے درد دل ایک ہی تو تری نشانی ہے پاس تم ہوتے تو کہاں ہوتا کہ یہ...
  15. آ

    برائے اصلاح

    سکونِ دل کو پڑھو لاالہ الا اللہ یہ ذکر کرتے رہو لاالہ الا اللہ نہیں ہے اس سے تو بڑھ کر کوئی بھی ذکر افضل یہ مالا جپتے رہو لاالہ الا اللہ ملے گا دل کو سکوں اور روح مہکے گی یہ ذکرِ خاص کرو لاالہ الا اللہ ہو صاف آئینہِ دل غبار چھٹ جائے دلوں میں نور بھرو لاالہ الا اللہ شریک اُس...
  16. آ

    برائے اصلاح

    دیکھو تو کتنی اچھی ہے یہ جو پیڑوں کی چھتری ہے سوچ رہا ہوں بیٹھ کے تنہا کچھ ہے اگر تو تیری کمی ہے تیرے برہنہ پیر کہاں پیں ریشم جیسی گھاس بچھی ہے اشک حسیں کےگال پہ ایسے پھول پہ جیسے اوس پڑی ہے دل تو دل ہے، ذکر سے تیرے روح معطر ہونے لگی ہے یاد تمھاری خاک اڑائے دل ہے صحرا ۔تو پانی ہے وصل...
  17. آ

    برائے اصلاح

    مل کر چلنے میں ہے برکت بارش اترے قطرہ قطرہ قطرے بنیں پھر مل کر دریا جیسے ملی قطروں کو طاقت مل کر چلنے میں ہے برکت موج کنارے پر جو آئے ختم اس کی ہستی ہو جائے دوری میں ہوتی ہے ہلاکت مل کر چلنے میں ہے برکت شاخ شجر سے جو کٹ جائے پھول نہ پھل پھر اس پر آئے یہ ہے صداقت، یہ ہے حقیقت مل کر چلنے میں...
  18. آ

    برائے اصلاح

    کچھوا اور خرگوش ایک کچھوے سے کوئی خرگوش یہ کہنے لگا مجھ کو آتی ہے ہنسی یہ دیکھ کر چلنا ترا طنز کچھوے نے سنا جب تو یہ بولا جوش سے دوڑ مجھ سے تو لگا اس نے کہا خرگوش سے بات یہ خرگوش سن کرزور سے ہنسنے لگا دوڑ کچھوے سے لگانے کو مگر راضی ہوا دور جنگل میں پرانا پیڑ دونوں نے چنا جیت جائے گا وہ جو...
  19. آ

    برائے اصلاح

    آبِ رواں مجھ کو ہے اچھا لگتا پانی چلتا پانی، بہتا پانی ٹھہرے پانی میں وہ کہاں ہے بات جو تجھ میں آبِ رواں ہے پیاس بجھاتا جائے سب کی تو انمول عطا ہے رب کی بچو دیکھو چلتا پانی اور کہیں پر ٹھہرا پانی دونوں میں جو فرق ہے دیکھو اور ذرا اس بات کو سمجھو چلنے سے شفاف ہوا ہے پاک ہوا ہے ،...
  20. آ

    برائے اصلاح

    پھول بھی لگتا ہے گلزار مجھے اور کانٹا بھی ہے تلوار مجھے میں تو شدت سے بھرا رہتا ہوں کوئی نفرت کرے یا پیار مجھے اس نے زلفوں کو کھلا چھوڑ دیا یوں کیا اس نے گرفتار مجھے دیکھ کر جس کو ہو جینے کی طلب کر گیا شخص وہ بیمار مجھے جس میں اقرار کے پہلو تھے کئی یوں کیا اس نے ہے انکار مجھے
Top