نتائج تلاش

  1. نوید ناظم

    میں وہ حادثہ ہوں جو ٹالا گیا تھا

    میں جنّت سے اِس پر نکالا گیا تھا مِرے منہ میں بس اک نوالا گیا تھا تُو وہ بات ہے دب کے جو رہ گئی ہے میں وہ قِصّہ ہوں جو اُچھالا گیا تھا دھماکا ہُوا تھا اندھیرے میں جس دم بڑی دُور تک پھر اُجالا گیا تھا مِری آستیں دیکھ کر لگ رہا ہے؟ کہ اس میں کوئی سانپ پالا گیا تھا بڑے سانحے تھے مِری زد میں...
  2. نوید ناظم

    کیوں اُس کو سمجھ میں یہ اشارے نہیں آتے

    کیوں اُس کو سمجھ میں یہ اشارے نہیں آتے گر خُشک ہوں تالاب، پرندے نہیں آتے سج دھج کے مِرے دل میں اُترتے ہو سرِ شام ویران گھروں میں کبھی ایسے نہیں آتے! اک ساتھ سبھی کچھ تو نہیں ملتا یہاں پر پھل آئیں جو حِصّے میں تو سائے نہیں آتے تاریخ نے بھی زور محبت پہ دیا ہے یہ بات الگ مجھ کو حوالے نہیں آتے...
  3. نوید ناظم

    در جو کُھلتا ہے تو دیوار نظر آتی ہے

    آنکھ اِس طرح سے بیزار نظر آتی ہے در جو کُھلتا ہے تو دیوار نظر آتی ہے تیرے جانے سے یہی فرق پڑا ہے ہم کو زندگی اور بھی دُشوار نظر آتی ہے کچھ تو معلوم ہے مجھ کو بھی وفا کا، بس کر یہ اگر ہو تو مِرے یار، نظر آتی ہے! ایک چہرہ کہ جسے بھول رہا ہوں اب تک ایک صورت کہ جو ہر بار نظر آتی ہے مجھ کو اچھا...
  4. نوید ناظم

    نظم

    مُرمّت ریل کی پٹڑی کہیں جاتی نہیں اب بند ہے آگے سے یہ رات کو سیٹی کی اک آواز جو تھی شُکر ہے اب وہ نہیں ہے دھوکا پیدا کر دیا کرتی تھی یوں ہی آرہا ہو جیسے کوئی دُور سے آواز دیتا یہ نگاہیں بھی جمی رہتی تھیں اس پٹڑی پہ دن بھر مجھ کو لگتا تھا کہ اب جو بھی ٹرین آئی یہاں پر لے کر آئے گی اُسے بھی پر...
  5. نوید ناظم

    پیار آتا ہے دشمنوں پر بھی

    پیسہ زردارچھوڑ جاتے ہیں ہم تو کردار چھوڑ جاتے ہیں پیار آتا ہے دشمنوں پر بھی جب مجھے یار چھوڑ جاتے ہیں ہم پرندوں کو مت اُڑا ایسے تیری دیوار چھوڑ جاتے ہیں! ہم سے صحرا نشیں اچانک بھی حُسنِ بازار چھوڑ جاتے ہیں طعنہ زن زندگی پہ ہیں کیا آپ؟ یہ بھی سرکار چھوڑ جاتے ہیں دوستوں سے گِلہ ہے تھوڑا سا...
  6. نوید ناظم

    کوزہء چشمِ تر بھرا نہ گیا

    کوزہء چشمِ تر بھرا نہ گیا میرے اندر سے یہ خلا نہ گیا دردِ اُلفت پہ کوئی زور نہیں دل سے یہ غم گیا گیا، نہ گیا میں وہ کردار ہوں جو ختم ہوا اب کہانی کا شاخسانہ گیا مختصر قِصّہ تھا غمِ دل کا تیز رو سے وہ بھی سُنا نہ گیا وہ گیا چھوڑ کر مجھے اور میں کیا سِتم ہے کہ پتھّرا نہ گیا تُو چراغوں کی لو...
  7. نوید ناظم

    وہ کتنا بد نصیب ہے کہ جس کو تُو بری کرے

    بھلا کوئی کرم بھی ہم پہ کیوں یہ روشنی کرے جو کرنا ہو ہمارے ساتھ کُھل کے تیرگی کرے کہ یا تو یہ ہے چپ رہے ہمارے سامنے کوئی اگر ضرور بات کرنی ہو تو پھر تِری کرے کمی تو دلبروں کی آج بھی نہیں جہان میں جو لگتا ہو کہیں پہ دل تو کوئی دل لگی کرے جو تھا مِرا سخن شناس مجھ سے وہ بچھڑ گیا کرے جو بات...
  8. نوید ناظم

    فرہاد! دن گیا تو ہے، اچھا نہیں گیا

    فرہاد! دن گیا تو ہے، اچھا نہیں گیا تیشے سے غم کے خود کو تراشا نہیں گیا وہ جا چُکا ہے اور میں اب بھی اِدھر ہی ہوں مطلب گیا میں آدھا، تو آدھا نہیں گیا خُوشبو نے ایک لمس کی زندہ رکھا مجھے وہ ایک جو ہوا کا تھا جھونکا، نہیں گیا سب خواب لے گیا ہے وہ میرے سمیٹ کر لمبا سفر تھا، شُکر ہے تنہا نہیں گیا...
  9. نوید ناظم

    غور فرمائیں۔۔۔

    اوراد و وظائف کی جو اصل حقیقت ہے وہ تو اہلِ باطن اور عالِم ہی جانتے ہوں گے مگر یہاں صرف ایک پہلو پر بات کرنے کو دل چاہتا ہے اور وہ یہ کہ ایسی آیات یا متبرک الفاظ جنھیں پڑھ کر دوگنا ثواب حاصل کرنے کا بتایا گیا، یعنی یہ کہ ایسے الفاظ جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ تسبیح اگر دن میں پچاس بار یا...
  10. نوید ناظم

    ترتیب

    کوئی بھی شے جب ترتیب میں آ جائے تو جاذبِ نظر ہو جاتی ہے۔ بے ترتیب بات میں معنی ہونے کے باوجود بھی لطف نہیں ہوتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ شُعٙرا اپنے شعروں کو خوبصورت بنانے کے لیے کس طرح ترکیبیں استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ربط وہ رابطہ ہے جو زندگی کو خوب صورتی اور شائستگی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے۔ کوئی ترتیب جب...
  11. نوید ناظم

    انسان اور نسیان

    کہتے ہیں کہ لفظ انسان کا لفظ نسیان سے بڑا گہرا تعلق ہے۔۔۔ انسان کو دیکھ کر ایسا لگتا بھی ہے- بھول جانا بڑی بات نہیں مگر بھولنے کا رویہ اپنا لینا کمزور بات ضرور ہے۔ ہم وہ بات جلد بھول جاتے ہیں جس بات کا تعلق ہمارے مفاد سے نہ ہو۔۔۔ مطلب ہم بات کو یاد نہیں رکھتے بلکہ مفاد کو یاد رکھتے ہیں۔ جاننے...
  12. نوید ناظم

    ضروری۔۔۔۔ غیر ضروری

    زندگی کا میلہ ضرورتوں کا میلہ بھی ہے۔ جس کو بھوک لگتی ہو، روٹی اُس کی ضرورت ہے۔ انسان ضرورت کو پورا کرنے میں لگا رہتا ہے اور ضرورت انسان کو۔ اور پھر اس کھیل میں انسان جان کی بازی ہار کر' جیتنے کا اعلان کرتا ہے۔ ضرورت سے بھاگا نہیں جا سکتا مگر ضرورت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ بڑا ضروری ہے کہ ہم یہ...
  13. نوید ناظم

    پابندی

    انسان دنیا میں آتے ہی پہلے اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اس دنیا میں جلوہ گر نہیں ہوا۔ یہ اظہار اصل میں پابندی کا اظہار ہے۔۔۔وہ وقت کی قید میں آ جاتا ہے، زبان رکھنے کے باوجود بول نہیں سکتا، ٹانگیں ہونے کے باوجود چل نہیں سکتا، وہ ایک حصار میں ہوتا ہے اور یہ حصار پابندی کا حصار ہے۔...
  14. نوید ناظم

    افراتفری

    انسان زندگی میں سکون چاہتا ہے اور پھر سکون کی تلاش اس کو متحرک کر دیتی ہے۔۔۔گویا انسان ٹھہرنے کی خواہش میں بھاگتا ہے، سکون کی زندگی حاصل کرنے کے لیے انسان زندگی کا سکون داؤ پر لگاتا رہتا ہے، یہ محبت کی آرزو میں کتنی نفرتوں سے روز گزرتا ہے مگر یہ سفر صحرا کے سفر کی طرح جاری رہتا ہے۔۔۔۔انسان کو...
  15. نوید ناظم

    اصلاح کی درخواست۔۔۔

    اہلِ کرم سے اصلاح کی درخواست ہے۔۔۔ یارم از یادِ تو دلِ من شاد است ورنہ ایں خانہ کہ ہمہ برباد است
  16. نوید ناظم

    انفرادیت

    دنیا میں کوئی انسان کسی اور انسان کی طرح ہوا نہ ہو گا۔۔۔سب کا چہرہ الگ، نصیب الگ اور عاقبت بھی الگ۔ یہاں ہر فرد، فردِ واحد ہے۔ ہم سب ایک ہو سکتے ہیں مگر ہم سب ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ انفرادیت، افراد کو ملنے والا خدائے واحد کی طرف سے خوبصورت تحفہ ہے۔۔۔۔کتنی عجیب بات ہے کہ سات ارب لوگوں میں کوئی...
  17. نوید ناظم

    زندگی کے زاویے اور ہم

    یہ بھی زندگی ہی کا رنگ ہے کہ رنگ رنگ کی زندگی ہے۔ زندگی کے زاویے اتنے زیادہ ہیں کہ انسان اگر سوچنے بیٹھے تو سوچتا چلا جائے۔ بات سے بات نکلتی رہتی ہے اور ہمیں بولنے کا جواز ملتا رہتا ہے۔ اگر صرف ایک سوچ، ایک خیال اور ایک زاویہ نظر ہوتا تو زندگی جامد ہو کے رہ جاتی۔ بات سچ یا جھوٹ کی نہیں ہو رہی...
  18. نوید ناظم

    اب اتنی زیست بھاری ہے

    اب اتنی زیست بھاری ہے کہ ہر اک سانس آری ہے ملی تھی زندگی ہم کو مکمل اُس پہ واری ہے ہمیں وہ جیت جیسی ہے جو بازی ہم نے ہاری ہے مِرے سینے سے جو نکلا وہ چشمہ غم کا جاری ہے وفا کا درس دیتے ہیں یہ دنیا ہم سے عاری ہے سمندر بھی ہے اک آنسو جو پانی اس کا کھاری ہے تو میرے حصے کا بھی کھیل کہ غم دینے...
  19. نوید ناظم

    دھوپ میں چھاؤں کو لے کر آگیا

    دھوپ میں چھاؤں کو لے کر آگیا شہر میں گاؤں کو لے کر آ گیا آبلہ پا تھا کہاں تک جاتا میں پھر انہی پاؤں کو لے کر آ گیا اُن بھری آنکھوں کو دیکھا تو لگا جیسے دریاؤں کو لے کر آ گیا عشق پہلے ہے پریشاں اور تُو حسن آراؤں کو لے کر آ گیا وصل، الفت اوروفا؟ او دل مرے! کن تمناؤں کو لے کر آ گیا ہو گئے...
  20. نوید ناظم

    غمِ ہجر کو یوں زیادہ کیا ہے

    غمِ ہجر کو یوں زیادہ کیا ہے اُسے بھولنے کا ارادہ کیا ہے وہی ہے معانی کی گہرائی اب بھی بس الفاظ کو تھوڑا سادہ کیا ہے یہ صحرا کے دل سے نکالیں گے چشمہ پیاسوں نے مل کے اعادہ کیا ہے تِرے درد سے ہم نے غزلیں بنا لِیں بڑا درد سے استفادہ کیا ہے نوید اب کسی اور کا یہ نہ ہو گا دلِ زخم خوردہ نے وعدہ کیا ہے
Top