نتائج تلاش

  1. خورشید بھارتی

    ایک شعر

    کوئی بھی بولتا ہی نہیں ظلم کے خلاف یہ گونگوں اور بہروں کی بستی لگی مجھے خورشید بھارتی
  2. خورشید بھارتی

    غزل

    بسی ہوئی ہے خلش ملگجے اجالوں میں کٹے گی آج کی شب بھی ترے خیالوں میں یہ زندگی بھی کوئی امتحان لگتی ہے ہر ایک شخص ہے الجھا ہوا سوالوں میں جو تیرے چہرے کو پڑھ کر نصیب ہوتا ہے وہ لطف ہی نہیں ملتا مجھے رسالوں میں کبھی جو ذکر چھڑے نامراد لوگوں کا ہماری نام بھی لے لینا تم حوالوں میں تمام لوگوں کی نظریں...
  3. خورشید بھارتی

    ایک شعر۔۔۔۔۔

    پھر یوں ہوا کہ گھر کو مرے آگ لگ گئی سچ بولنے لگا تھا ستمگر کے سامنے۔۔۔ خورشید بھارتی
  4. خورشید بھارتی

    غزل

    شفق،جگنو، ستارا ۔۔۔ بولتا ہے تری باتوں میں نغمہ بولتا ہے کہیں ٹھکرانہ دے اک روز مجھکو مجھے وہ اپنی دنیا بولتا ہے وفا اخلاص چاہت گم ہوئی اب یہاں ہر سمت پیسہ بولتا ہے تو کتنا خوش ہے اپنی زندگی سے یہ سچ چہرا تمہارا بو لتا ہے اک حد تک کرتا ہے برداشت ورنہ خلاف ظلم گونگا بولتا ہے خورشید بھارتی انڈیا
  5. خورشید بھارتی

    ایک شعر

    آج بھی اسکی آس لگا ئے بیٹھا ہوں آنکھوں میں جو خواب سجاکر چھوڑ گیا خورشید بھارتی
  6. خورشید بھارتی

    ایک شعر

    آج بھی اسکی آس لگا ئے بیٹھا ہوں آنکھوں میں جو خواب سجاکر چھوڑ گیا خورشید بھارتی انڈیا
  7. خورشید بھارتی

    غزل برائے اصلاح۔۔۔۔۔۔

    دل کا ہے سوز لوگو، کوئی ساز نہیں ہے یہ شاعری ہے حسن کی آواز نہیں ہے پتہ نہیں بچا ہے کوئی صحن چمن میں کیا سرپھری ہوا کا سازباز نہیں ہے ہونا ترا اس شوخ ادا سےغزل سرا کہدو طوائفوں کا یہ انداز نہیں ہے تعمیر کرے کون محبت کی نشانی شاہ جہاں نہیں کوئی ممتاز نہیں ہے کھل کر یزید وقت سے جو کردے بغاوت...
  8. خورشید بھارتی

    ایک شعر

    جل رہا ہے غریب شہر کا گھر دور بستی میں جو اجالا ہے خورشید بھارتی انڈیا
  9. خورشید بھارتی

    غزل

    گئے دن کی نشانی ہو گئی ہے مری تختی پرانی ہو گئی ہے گلوں نے خودکشی کرلی یہ سن کر خزاں کی حکمرانی ہو گئی ہے اچانک مل گئے جو آپ ہم سے یہ رت کتنی سہانی ہو گئی ہے ضرورت سے فقط ملتی ہے ہم سے بہت دنیا سیانی ہو گئی ہے نسیں دکھلاتی ہے ہاتھوں کی اکثر وہ اک لڑکی دیوانی ہو گئی ہے فقط اب رینگتی ہے گھر کے...
  10. خورشید بھارتی

    غزل

    چمکتی رنگ برنگی تتلیاں بھی بھلی لگتی ہیں تیری بالیاں بھی دھڑکتا ہے ہمارا دل بھی جاناں کھنکتی ہیں تمہاری چوڑیاں بھی تمہاری آنکھوں کی جادو گری سے حسد کرتی ہیں کتنی لڑکیاں بھی اسے رکھتا ہوں دل کے پاس اپنے بناتا ہوں میں اس سے دوریاں بھی جلا تھا بلب بھی اسکا سحر تک کھلی تھیں دونوں اس کی کھڑکیاں...
  11. خورشید بھارتی

    اس رباعی کی تشریح فرمادیں حضرات

    اک فتنہ ہے ناقصوں میں کامل ہونا اک قہر ہے وابستۂ منزل ہونا تاریخ کے اوراق جو الٹے تو کھلا اک جرم ہے احمقوں میں عاقل ہونا جوش ملیح آبادی
  12. خورشید بھارتی

    شریعت کی رو سے ایک سوال

    بیوی شوہر کے کام سے لوٹنے پر مصلے پر رہتی ہے اکثر۔کیا یہ صحیح ہے۔کہتی ہے رب خوش تو سب خوش۔
  13. خورشید بھارتی

    غزل برائے اصلاح

    محبت جاودانی ہو گئی ہے وفاکی تر جمانی ہو گئی ہے ضرورت سے فقط ملتی ہے ہم سے بہت دنیا سیانی ہو گئی ہے لہو سے لکھ رہی ہے نام میرا وہ اک لڑکی دیوانی ہو گئی ہے قدم کیا شہر میں رکھا ہے اس نے فضا کیوں ضو فشانی ہو گئی ہے فقط اک کمرے میں اب رینگتی ہے عذاب اک زندگانی ہو گئی ہے فضا میں زہر ہے نفرت کا...
  14. خورشید بھارتی

    سردی کے نام ایک شعر

    اک چادر میں سردی میری بیت گئی جاتےجا تے اس نے گلے سے لگایا تھا خورشید بھارتی کلکتہ
  15. خورشید بھارتی

    غزل برائے اصلاح

    1-چھوڑ کر مئے پی رہی ہے زہر اب میری غزل ہو گئی ہے سر سےلیکر پاؤں تک نیلی غزل 2-آپ کی آواز پاکر ہوگئی ہے معتبر ورنہ میں نے تو لکھی تھی ایک ہلکی سی غزل 3-ہم نے لفظوں کو تراشے،حرف میں موتی جڑے خوبصورت ہو نہ پائی آپ کی جیسی غزل 4-مسکرا کر لوٹ لی محفل مگر ایک شوخ نے یوں تو میں نے بھی سنائی تھی بہت...
  16. خورشید بھارتی

    غزل برائے اصلاح

    تیرے ہونٹوں کی ہنسی اچھی لگی جگنوؤں کی روشنی اچھی لگی جب لگی ہا تھوں میں ان کی مہندیاں مجھ کو ان کی بے بسی اچھی لگی ہو گیا اب معتبر میرا قلم ان کو میری شاعری اچھی لگی شہر گھو ما سیکڑوں میں نے مگر مجھ کو بس تیری گلی اچھی لگی کچھ پرانے دوستوں میں بیٹھ کر بد مزہ یہ چائے بھی اچھی لگی ہو گئی...
  17. خورشید بھارتی

    غزل

    غزل میں تری یاد کے خمار میں گم اور وہ اپنے کاروبار میں گم ایک سایہ ابھی تھاکمرےمیں ہو گیا کیسے وہ دیوار میں گم میں کسی اور کی تلاش میں ہوں اور وہ دوسرے شکار میں گم کوئی وعدہ نہیں ہے آنے کا پھر بھی ہوں تیرے انتظار میں گم گنگنانے لگے ہو تم غزلیں ہو گئے کیا کسی کے پیارسے میں گم شان و...
  18. خورشید بھارتی

    تین شعر

    مری ہتھیلی میں نام وفا لکھا ہی نہیں میں چاہتا تھا جسے وہ مجھے ملا ہی نہیں وہ جس کو سوچ کے سب لوگ سہمے سہمے ہیں وہ حادثہ ابھی اس شہر میں ہوا ہی نہیں محل کا راستہ سیدھا تھاتیرے شہزادی میں ایسے رستے پہ لیکن کبھی چلا ہی نہیں ‏خورشید بھارتی
  19. خورشید بھارتی

    براےء اصلاح چند شعر

    مری ہتھیلی میں نام وفا لکھا ہی نہیں میں چاہتا تھا جسے وہ مجھے ملا ہی نہیں وہ جس کو سوچ کے سب لوگ سہمے سہمے ہیں وہ حادثہ ابھی اس شہر میں ہوا ہی نہیں محل کا راستہ سیدھا تھاتیرے شہزادی میں ایسے رستے پہ لیکن کبھی چلا ہی نہیں
  20. خورشید بھارتی

    چند شعر برائے اصلاح

    میں اسکے دل سے یوں ہی کھیلتا تھا مگر نظروں میں اسکی دیوتا تھا جسے چاہا تھا میں نے جان ودل سے کرےگا بے وفائی۔کیا پتہ تھا اچانک ہوگیا خاموش کیسے ابھی کچھ دیر پہلے بولتا تھا وہیں سے بو دیئے ہیں خار کس نے جہاں سے تیرے گھر کا راستہ تھا
Top