ہماری باتیں ہی باتیں ہیں
ایک بی بی نے کہ مشہور صحافن ہیں ایک اخبار میں مضمون لکھا ہے۔ جس میں کاہلی کی خوبیاں گنوائی ہیں۔ کاہل ہم بھی ہیں لیکن یہ کبھی خیال نہ آیا تھا کہ ہمارا تصور جاناں کیے ہوئے لیٹے رہنا بھی ایک کمال ہے اور جس طرح کا بھی کسی میں ہو کمال اچھا ہے۔ یہ بی بی بھی ہماری عادت کی...
کون سُنے
فراز دار سے تا پستیِ حفاظت ذات
کوئی نہیں جو احساس کی صدا سُن لے
اسی لیے تو ہر انسان کے لب پہ ہے یہ دعا
خُدا کرے میری بپتا مرا خدا سُن لے
مطالبہ ہے یہ ہم عصر حق پرستوں کا
فضا میں چیخ سُنائی بھی دے، دکھائی بھی دے
یقیں سے کون کہے نغمے ہیں کہ فریادیں
افق افق اگر اک شور سا سُنائی بھی دے...
تجھے اظہار محبت سے اگر نفرت ہے
تو نے ہونٹوں کو لرزنے سے تو روکا ہوتا
بےنیازی سے مگر کانپتی آواز کے ساتھ
تو نے گھبرا کے میرا نام نہ پوچھا ہوتا
تیرے بس میں تھی اگر مشعل جذبات کی لو
تیرے رخسار میں گلزار نہ بھڑکا ہوتا
یوں تو مجھ سے ہوئیں صرف آب وہوا کی باتیں
اپنے ٹوٹے ہوئے فقروں کو تو پرکھا ہوتا...
غزل
لالہ و گُل کے جو سامان بہم ہو جاتے
فاصلے دشت و چمن زار میں کم ہو جاتے
ہم نے ہر غم سے نکھاری ہیں تمہاری یادیں
ہم کوئی تم تھے کہ وابستۂ غم ہو جاتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود کو کھویا تو نہیں، تم کو نہ پایا، نہ سہی
تم کو پاتے تو اسی کیف میں ضم ہو جاتے
صرف ہم پر ہی نہ یہ حادثہ ہوتا موقوف
تم...
سونا
تم کہتے ہو آفتاب ابھرا
میں کہتا ہوں جل رہا ہے سونا
پیڑوں سے گزر رہی ہیں کرنیں
ہاتھوں سے نکل رہا ہے سونا
مشرق کی تمازتِ اَنا سے
مغرب میں پگھل رہا ہے سونا
دشتِ وفا
دوست کہتے ہیں ترے دشتِ وفا میں کیسے
اتنی خوشبو ہے، مہکتا ہو گلستاں جیسے
گو بڑی چیز ہے غم خواریِ اربابِ وفا
کتنے بیگانۂ آئینِ وفا ہیں یہ لوگ
زخم در زخم محبت کے چمن زار میں بھی
فقط اک غنچۂ منطق کے گدا ہیں یہ لوگ
میں اُنھیں گلشنِ احساس دکھاؤں کیسے
جن کی پروازِ بصیرت پرِ بلبل تک ہے
وہ نہ...
فکر
راتوں کی بسیط خامشی میں
جب چاند کو نیند آ رہی ہو
پھولوں سے لدی خمیدہ ڈالی
لوری کی فضا بنا رہی ہو
جب جھیل کے آئینے میں گھل کر
تاروں کا خرام کھو گیا ہو
ہر پیڑ بنا ہوا ہو تصویر
ہر پھول سوال ہو گیا ہو
جب خاک سے رفعتِ سما تک
ابھری ہوئی وقت کی شکن ہو
جب میرے خیال سے خدا تک
صدیوں کا سکوت خیمہ...
روایت
قدموں کے نقوش ہوں کے چہرے
قبروں کے گلاب ہوں کہ سہرے
تاریخ کے بولتے نشاں ہیں
تہذیب کے سلسلے رواں ہیں
یہ رسمِ جہاں قدیم سے ہے
آدم کا بھرم ندیم سے ہے
دعوت
اے میری پرستشوں کے حقدار
آ، میں تیرے حسن کو نکھاروں
چہرے سے اُڑا کے گردِ ایام
آ، میں تیری آرتی اُتاروں!
تُو میری زباں بھی، آسماں بھی
میں تجھ کو کہاں کہاں پکاروں
تضاد
کتنے کوسوں پہ جابسی ہے تو
میں تجھے سوچ بھی نہیں سکتا
اتنا بے بس ہوں تیری سوچ کو میں
ذہن سے نوچ بھی نہیں سکتا
مجھ سے تو دُور بھی ہے پاس بھی ہے
اور مجھے یہ تضاد راس بھی ہے
ماہنامہ فنون کا دفتر اب تو خیر انارکلی ہی میں اور جگہ چلا گیا ہے۔ پہلے گرجا کے سامنے ایک چوبارے میں تھا۔ اسی میں حکیم حبیب اشعر صاحب مطب بھی کیا کرتے تھے۔ سامنے کے برآمدے میں احمد ندیم قاسمی صاحب تشریف رکھتے اور اہلِ ذوق کا مجمع چائے کے خم لنڈھاتا۔ دوسرے میں حکیم صاحب قارورے دیکھتے اور دوائیں...