رند اب خرقۂ و دستار تبرک سمجھیں شیخ کعبے کو چلے تارکِ دنیا ہو کر نواب مرزا ممتاز الدین احمد خاں مائلؔ دہلوی ۱۸۶۶–۱۸۹۴ دہلی، ہندوستان مآخذ کلامِ...
اے جنوں رگ ہائے تن کو شوق نشتر پھر ہوا دیکھتا ہوں پھر کسی کی نوک مژگاں کی طرف فقیر محمد خان گویاؔ ۱۷۸۴–۱۸۵۰ لکھنؤ، ہندوستان مآخذ دیوانِ گویاؔ
شام کو پڑھنی نمازِ صبح واجب ہو گئی روے عالمتاب سے سرکا جو گیسو یار کا فقیر محمد خان گویاؔ ۱۷۸۴–۱۸۵۰ لکھنؤ، ہندوستان مآخذ دیوانِ گویاؔ
غارت کیا اخیر جوانی میں دہر کو دنیا تمام لوٹ لی تھوڑی سی رات میں سید اسماعیل حسین منیرؔ شکوہ آبادی ۱۸۱۴–۱۸۸۰ رام پور، ہندوستان مآخذ منتخب...
رہوں آہ محروم میں بندگی سے اسی واسطے مجھ کو پیدا کیا تھا ✍ جوششؔ عظیم آبادی ( شیخ محمد روشن ) عظیم آباد، بھارت | ۱۷۳۷–۱۸۰۱ دیوانِ جوششؔ
سُنا ہے اب تو اُن کی بزم میں بھی ذِکر ہوتا ہے مرے کام آ گیا آخر مرا بد نام ہو جانا ✍ حامد اللہ افسرؔ لکھنؤ، بھارت | ۱۸۹۵–۱۹۷۴...
دیوانگی میں اکثر اِک لُطف دے گیا ہے پہروں خموش رہ کر زانوں پہ سَر جُھکانا ✍ مرزا علی رضا ضیاؔ عظیم آبادی ریاضِ شاداب ۱۳۱۹ ھ
نگاہِ شوق سے پوچھو کہ کیا گزری ترے دم پر کسی نے منہ چُھپایا جب سرِ دیوار دامن سے ✍ مرزا محمد تقی بیگ مائلؔ دہلوی دہلی مٹیا محل | ۱۸۵۰ –...
تعمیر دیر و کعبہ سے مٹی ہماری کچھ باقی جو رہ گئی تھی سو پیمانہ بن گیا ✍ مرزا محمد تقی بیگ مائلؔ دہلوی دہلی مٹیا محل | ۱۸۵۰ – ۱۹۳۱ کُلیاتِ...
زندگی اور بندگی گزری اُلٹے سیدھے نباہ نے مارا ۱۹۴۵ء پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق شاہ جہاں پور، بھارت |...
اب اور کس کو بتاؤں کہ مُجھ پہ کیا گزری مجھے تو میرا خُدا بھی اُداس ملتا ہے ✍ امیرؔ قزلباش ( امیر آغا قزلباش ) دہلی | ۱۹۴۳ – ۲۰۰۳ انکار
گرد جھاڑی پیرِ میخانہ نے اپنے ہاتھ سے دامنِ دُردی کشاں رشکِ مصلّیٰ ہو گیا ✍ مرزا محمد تقی بیگ مائلؔ دہلوی دہلی مٹیا محل | ۱۸۵۰ – ۱۹۳۱...
جو کچھ گزر گئی ہے خُدا سے کہیں نہ ہم ہم ماجرائے غم بُتِ کافر سے کیا کہیں ✍ مرزا محمد تقی بیگ مائلؔ دہلوی دہلی مٹیا محل | ۱۸۵۰ – ۱۹۳۱...
نام سُنتے ہو جِس کا ویرانہ وہی سودائیوں کی بستی ہے ✍ جوششؔ عظیم آبادی ( شیخ محمد روشن ) عظیم آباد، بھارت | ۱۷۳۷–۱۸۰۱ دیوانِ جوششؔ
کوئی پُوچھے مسیحا سے مگر یہ رات بھاری ہے پریشاں کیوں چراغِ خانۂ بیمار جلتے ہیں عشقؔ لکھنوی ( سید حسین مرزا ) لکھنؤ، بھارت | ۱۳۰۳ھ وفات...
مقبول کیوں نہ ہونگی میخانے کی نمازیں گو دل ہے غرق لیکن دامن تو بچ رہا ہے ✍ حامد اللہ افسرؔ لکھنؤ، بھارت | ۱۸۹۵–۱۹۷۴ پیامِ رُوح
خانقاہیں دیکھ لیں دیر و حرم دیکھے مگر اب نیا معبد بنائیں گے صنم خانے کے پاس ۱۹۴۴ء ✍ پنڈت جگموہن...
شرمِ عصیاں کی ہمیں بھی تو جزا ملتی ہے زہد و تقویٰ کے جو زاہد کو ثواب آتے ہیں نواب میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع دکن، حیدرآباد | ۱۸۸۶ –...
ناموں کو کاما سے علیحدہ کریں