یہاں لوگ ہیں سیدھے سادے کئی بدلتے ہیں دن میں لبادے کئی جہاں تھے وہیں کے وہیں رہ گئے کہ بن بن کے ٹوٹے ارادے کئی نہ چلیے تو پھر کوئی رستہ نہیں...
زیست میں ہو کوئی ترتیب ضروری تو نہیں لوگ ہوں تابعِ تہذیب ضروری تو نہیں مہربانوں نے بلایا ہے محبت سے مگر راس آ جائے وہ تقریب ضروری تو نہیں آپ...
شاہین فصیحؔ ربانی ہائیکو اک بوڑھا کیکر جھینگر شور مچاتا ہے سوکھی شاخوں پر سورج ہے سر پر کیکر کے ننھے پتے سایا دیتے ہیں پت جھڑ کا منظر...
شاہین فصیح ربانی غزل عرصہء خواب میں رہا جائے نام تعبیر کا دیا جائے اس طرف بے سبب چلا جائے جس طرف دشت کی ہوا جائے اس یقیں سے سفر کیا جائے...
شاہین فصیح ربانی غزل پہلے اس خاکدان سے نکلے پھر کوئی آسمان سے نکلے حسرتوں کے جہان سے نکلے دل جو تیرے گمان سے نکلے دونوں کردار ہی...
قطعہ فصل جڑ سے اکھاڑ کر رکھ دی اس نے کھیتی اجاڑ کر رکھ دی کر کے دعویٰ سنوارنے کا اسے شکلِ ہستی بگاڑ کر رکھ دی شاہین فصیح ربانی
شاہین فصیحؔ ربانی غزل رابطہ جب مہ و اختر سے ہوا آشنا رات کے منظر سے ہوا پل گھڑی دُور سمندر سے رہے یہ کہاں تیرے شناور سے ہوا چوٹ باہر کی تو سہ...
شاہین فصیح ربانی غزل ترا گمان کہ بڑھتا ہے پستیوں کی طرف مرے یقین کی نظریں ہیں رفعتوں کی طرف میں اپنی ذات کی تنہائیوں میں شاداں تھا وہ...
شاہین فصیح ربانی غزل تیغ اب اُٹھائیں گے، یا قلم اُٹھائیں گے سوچ کر اُٹھائیں گے جو قدم اُٹھائیں گے نازکی پہ مت جاؤ، بات حوصلے کی ہے دل ہے کانچ...
غزل پھول ہیں یا کہ خار ہیں ہم لوگ آبروئے بہار ہیں ہم لوگ ہیں اسی اعتبار پر زندہ زیست کا اعتبار ہیں ہم لوگ ختم ہونے کو ہے حرارتِ زیست اختتامی...
شاہین فصیح ربانی غزل ٹھوکر لگی تو کوئی سہارا نہیں ملا بھٹکے تو آسماں پہ ستارا نہیں ملا اُٹھ آتے اُس کی بزم سے‘ تھا حوصلہ مگر اُس کی طرف...
شاہین فصیح ربانی غزل دولت پہ ہر ایک نے نظر کی توقیر نہیں رہی بشر کی ہر سمت سراب رکھ دیئے ہیں نیت ہے خراب رہگزر کی سیدھے سے غرض بیان کر...
شاہین فصیح ربانی غزل پھیر لیتا ہے مجھ سے تو آنکھیں چھوڑ دیتی ہیں آرزو آنکھیں کوئی دیوانہ اس کو سمجھے گا کر رہی ہیں جو گفتگو آنکھیں...
السلام علیکم! آپ کی خدمت میں پیش ہے ایک تازہ غزل غزل جب سمندر میں ہوا تیز ہوئی شورشِ سیلِ بلا تیز ہوئی نہ رہی بادِ صبا‘ بادِ صبا اپنی...
شاہین فصیحؔ ربانی غزل تمہاری فتح کا اعلان کرنا چاہتا ہے زمانہ تم کو یوں حیران کرنا چاہتا ہے اسے کہیے کہ میری مشکلیں بڑھنے لگی ہیں جو میری...
شاہین فصیح ربانی غزل خواب ہے یا خیال ہے دنیا ایک مشکل سوال ہے دنیا اس میں پھنس کر نکل نہیں سکتے کوئی مکڑی کا جال ہے دنیا خلدِ عقبیٰ...
غزل اللہ رے! اشارہء ابرو کا اعتبار آنے لگا ہے حسن کے جادو کا اعتبار کس بے یقین شہر میں زندہ ہیں ہم جہاں صوفی کا‘ پارسا کا‘ نہ سادھو کا...
غزل یک رنگیِ حیات نے تڑپا دیا مجھے غم کی سیاہ رات نے تڑپا دیا مجھے یا دل کو زندگی کی تمنا نہیں رہی یا خواہشِ ثبات نے تڑپا دیا مجھے ہموار اس کی...
غزل - در دیکھنا کبھی، کبھی دیوار دیکھنا شاہین فصیحؔ ربانی شاید یہی جنوں کے ہیں آثار دیکھنا ’’در دیکھنا کبھی‘ کبھی دیوار دیکھنا‘‘ رکھنا...
احباب کے ذوقِ مطالعہ کی نذرایک غزل دریائے غم کا راہ سے ہٹنا محال ہے اور آدھے راستے سے پلٹنا محال ہے یھ وہ شب وصال نھیں ھے کھ بیت جائے تنھائیوں...
ناموں کو کاما سے علیحدہ کریں