نتائج تلاش

  1. طارق شاہ

    فراز چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے

    بہت عمدہ انتخاب جناب تشکّر
  2. طارق شاہ

    فراز مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے

    اب بھی، چسپاں تخلیق غلطیوں سے مبرّا نہیں ہے شاید اب بھی تیرا غم دل سے لگا رکھا ہو شاید اب بھی تِرا غم دل سے لگا رکھا ہو ۔۔۔۔۔ "شاید اب لوٹ کے نہ آئے تیری محفل میں" وزن میں نہیں میرے خیال میں یوں ہوگا کہ: شاید اب لوٹ کے آئے نہ تیری محفل میں ۔۔۔۔۔ اسی دوراہے پہ چپ چاپ کھڑا رہ جاؤں اس ہی...
  3. طارق شاہ

    حضورِ داورِ محشر ، گناہ گار آئے - پنڈت بشن نراین صاحب در المتخلص بہ ابر لکھنوی

    جناب نیرنگ خیال صاحب جواب کے لئے متشکّر ہوں بہت خوش رہیں
  4. طارق شاہ

    حضورِ داورِ محشر ، گناہ گار آئے - پنڈت بشن نراین صاحب در المتخلص بہ ابر لکھنوی

    جناب کاشفی صاحب جونبارکی بستگی اس خوب صورت غزل سے قبل نظر سے نہیں گزری، اور نہ ہی میں اس کے معنی سے واقف ہوں اگرچہ مفہوم ذہن میں با آسانی آرہا ہے پھر بھی اصل لطف سے محرومی کے خدشہ کی وجہ سے استفسار کر رہا ہوں ایک بار پھر سے میری ڈھیر سری داد اس غزل کی پیشکش پر
  5. طارق شاہ

    دعوے لبوں پہ جن کے، ہمیشہ وفا کے ہیں - شفیق خلش

    جناب زحال مرزا صاحب دلی تشکّر اس اظہار خیال پر، جو میرے لئے باعث مسرت ہے خوشی ہوئی کے غزل آپ کو پسند آئی
  6. طارق شاہ

    دعوے لبوں پہ جن کے، ہمیشہ وفا کے ہیں - شفیق خلش

    جناب شیخ صاحب! آپکا دیا نام "عمدہ جی " اچھا لگا :) اظہار خیال کے لئے ممنون ہوں بہت خوشی ہوئی جو انتخاب آپ کو پسند آیا تشکّر
  7. طارق شاہ

    دعوے لبوں پہ جن کے، ہمیشہ وفا کے ہیں - شفیق خلش

    یہاں پر میرے لئے بھی بہت سا سامان ہے، انشااللہ، میری یہی کوشش رہے گی
  8. طارق شاہ

    غزلِ شفیق خلش "ابھی کچھ ہیں مِلنے کو باقی سزائیں"

    جناب کاشفی صاحب انتخاب کی پذیرائی کے لئے صمیم دل سے سپاس گزار ہوں اظہار خیال کے لئے تشکّر ، بہت خوشی ہوئی کہ انتخاب غزل ذوق جمیل پر پوری اتری
  9. طارق شاہ

    حضورِ داورِ محشر ، گناہ گار آئے - پنڈت بشن نراین صاحب در المتخلص بہ ابر لکھنوی

    گدائے حُسن کے حق میں یہ حکم صادر ہے گھر اور دیکھے میرے گھر نہ بار بار آئے ادب سے کہیو یہ اُس گل سے اے نسیمِ چمن حضور دیں جو اجازت تو ، خاکسار آئے الہٰی وہ بھی دن آئے کہ ہم سنیں مژدہ چلو بُلانے کو ڈیوڑھی پہ چوبدار آئے اسیرِکنج قفس کو چمن سے کیا مطلب مری بلا سے خزاں آئے یا بہار آئے ۔۔۔۔۔۔۔ کیا...
  10. طارق شاہ

    دعوے لبوں پہ جن کے، ہمیشہ وفا کے ہیں - شفیق خلش

    نو آموز ہوں، اس کا خیال رہے حضرت آہستہ آہستہ رموز یاراں سے واقف ہوجاؤں گا :) تشکّر صاحب
  11. طارق شاہ

    دعوے لبوں پہ جن کے، ہمیشہ وفا کے ہیں - شفیق خلش

    جناب نیرنگ خیال صاحب اظہارِ خیال کے لئےاور ستائشِ غزل کے لئے، آپ کا ممنون ہوں دِلی مُسّرت ہُوئی جو غزل آپ کو پسند آئی پسندیدہ کلام کی اس لڑی میں بہت ہی اچھی غزلیں خود مجھے بھی پڑھنے کو ملی ہیں میں نیا ہوں، فرداََ فرداََ لکھنے سےہچکچاہٹ ہے ماشااللہ سب نے کیا خوب ذوق پایا ہے یہاں، سب ہی داد...
  12. طارق شاہ

    غزلِ شفیق خلش "ابھی کچھ ہیں مِلنے کو باقی سزائیں"

    جناب نایاب صاحب اظہارِ خیال کے لئے تشکّر مُسّرت سے دوچار ہوا جو انتخاب غزل آپ کے ذوقِ خوب کو راس آئی بہت شکریہ
  13. طارق شاہ

    دعوے لبوں پہ جن کے، ہمیشہ وفا کے ہیں - شفیق خلش

    جناب نایاب صاحب اظہارِ خیال کے لئے ممنون ہوں! دِلی مُسّرت ہُوئی جو غزل آپ کے ذوقِ جمیل کے شایان ٹھری تشکّر ایک بار پھر سے
  14. طارق شاہ

    غزلِ شفیق خلش "ابھی کچھ ہیں مِلنے کو باقی سزائیں"

    جناب زحال مرزا صاحب آپ کا اظہار خیال دلی طمانیت کا باعث ہوا بہت خوشی ہوئی جو انتخاب غزل آپ کے ذوق بسیار خوب کے مطابق ٹھری تشکّر
  15. طارق شاہ

    غزلِ شفیق خلش "ابھی کچھ ہیں مِلنے کو باقی سزائیں"

    جناب زبیر صاحب خوشی ہوئی جو انتخاب آپکو پسند آیا اظہار خیال کے لئے دلی تشکّر
  16. طارق شاہ

    دعوے لبوں پہ جن کے، ہمیشہ وفا کے ہیں - شفیق خلش

    جناب سید زبیر صاحب اظہار خیال کے لئے ممنون ہوں، بہت خوشی ہوئی کہ میرا انتخاب آپ کے ذوق خوب کو پسند آیا تشکّر
  17. طارق شاہ

    غزلِ شفیق خلش "ابھی کچھ ہیں مِلنے کو باقی سزائیں"

    غزلِ شفیق خلش ابھی کچھ ہیں مِلنے کو باقی سزائیں وہ گِنتے ہیں بیٹھے ہماری خطائیں نہیں آتے پل کو جو پہروں یہاں تھے اثر کھو چکی ہیں سبھی اِلتجائیں زمانہ ہُوا چھوڑ آئے وطن میں نظر ڈُھونڈتی ہے اب اُن کی ادائیں مِرے خونِ ناحق پہ اب وہ تُلے ہیں جو تھکتے نہ تھے لے کے میری بَلائیں خَلِش تم...
  18. طارق شاہ

    دعوے لبوں پہ جن کے، ہمیشہ وفا کے ہیں - شفیق خلش

    شکریہ جناب کاشفی و جناب وارث صاحب
  19. طارق شاہ

    دعوے لبوں پہ جن کے، ہمیشہ وفا کے ہیں - شفیق خلش

    غزل شفیق خلش دعوے لبوں پہ جن کے، ہمیشہ وفا کے ہیں دل پر ہمارے زخم، اُنہی کی سزا کے ہیں ہجرت، ملال، بے وطنی، بیکسی، الم سارے ثمر یہ اپنی ہی شاخِ دعا کے ہیں اُن کی وفا کی بات کا کرکے یقین ہم یہ سوچتے ہیں کیا بھلا معنی جفا کے ہیں افسوس اُن کو ہوگا ہمیں یاد کرکے کل مسرورآج، ہم پہ جو تہمت لگا کے...
Top