غزل
شفیق خلش
حوصلے جب نہ کچھ جواں سے رہے
روزوشب ہم پہ اِمتِحاں سے رہے
اشک آنکھوں سے یُوں رواں سے رہے
لوگ نظروں میں سب دُھواں سے رہے
ہم یہ کہنا تو اِس زباں سے رہے
کیا تعلّق فِلاں فِلاں سے رہے
منزِلِ عشْق کِس طرح مِلتی
جب نہ ہم میرِکارواں سے رہے
موسَمِ دِل نہ اِس بَرَس بدلا
ہم...
تِیرگی ختْم ہوئی، صُبْح کے آثار ہُوئے
شہْرکے لوگ نئےعزْم سے بیدار ہُوئے
شب کی تارِیکی میں جوآئے تھے رہزن بن کر
صُبْح ہوتے ہی وہ رُسوا سرِ بازار ہُوئے
جگمگانے لگِیں پھرمیرے وطَن کی گلِیّاں
ظُلم کے ہاتھ سِمَٹ کر پسِ دِیوار ہُوئے
ہم پہ احساں ہے تِرا، شہْر کی اے نہرِعَظِیم
تو نے سِینے پہ...
وہ ہونٹ، فیض سے جن کے بہار لالہ فروش
یعنی وہ ہونٹ ، جس کی برکت ( دَین یا کرم سے )، بدولت ہی، بہار لالہ فروش ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیض صاحب کی نظم پیش کرنے پر تشکّر
بہت خوش رہیں
محسن وقار صاحب
خوش آمدید
جناب ناصر کاظمی کی بہت اچھی غزل شیئر کرنے پر تشکّر
تاہم چند ایک جگہ ٹائپو یا کچھ لفظ رہ گئے ہیں، درست یہاں لکھ رہا ہوں
وارث صاحب امید ہے بالا لکھے کو درست کر لیں گے ۔
تشکّر شیئر کرنے کا
بہت خوش رہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے
غم کی معیاد بڑھاؤ کہ...
غزل
شفیق خلش
کچھ نہ ہم کو سُجھائی دیتا ہے
ہر طرف وہ دِکھائی دیتا ہے
خود میں احساس اب لئے اُن کا
لمحہ لمحہ دِکھائی دیتا ہے
ہوگئے خیر سے جواں ہم بھی
گُل بھی اب گُل دِکھائی دیتا ہے
دسترس میں ہے کچھ نہیں پھر بھی
اونچا اونچا سُجائی دیتا ہے
کب محبت میں سُرخ رُو ہونا
اپنی قسمت دِکھائی دیتا...
غزل
جگرمرادآبادی
آئے زباں پہ رازِ محبت محال ہے
تم سے مجھےعزیز تمہارا خیال ہے
نازُک تِرے مریضِ محبت کا حال ہے
دن کٹ گیا، تو رات کا کٹنا محال ہے
دل، تھا ترے خیال سے پہلے چمن چمن
اب بھی روش روش ہے، مگر پائمال ہے
کم بخت اِس جُنونِ محبت کو کیا کروں!
میرا خیال ہے ، نہ تمہارا خیال ہے
آنکھیں...