تا گور کے اوپر وہ گل اندام نہ آیا
ہم خاک کے آسودوں کو آرام نہ آیا
بے ہوشِ مئے عشق ہوں کیا میرا بھروسا
آیا جو بخود صبح تو میں شام نہ آیا
دیکھا نہ اُسے دور سے بھی منتظروں نے
وہ رشکِ مہِ عید لبِ بام نہ آیا
کیا کہنے صاحب
بہت ہی خوب غزل جناب
تشکّر پیش کرنے پر
بہت خوش رہیں