جی با لکل ہو سکتے ہیں، یہ قوافی شرط توجیہ پر پورے اترتے ہیں
کیونکہ اِن میں حرف روی ا (الف) ہے
اوراِس قافیوں کے ساکن الف (حرف روی ) سے قبل کے تمام حرف پر ایک جیسے اعراب (زبر ) ہیں
بس یہ خیال رہے کہ سا کن حرفِ روی سے قبل آئے حرف پر، اعراب (حرکت ) جسے توجیہ کہتے ہے ایک سے ہوں
اِن یا اِس...
قرۃالعین اعوان صاحبہ
پروین شاکر صاحبہ کی ایک بہت اچھی غزل پر بہت سی داد پیش ہے
تشکّر شیئر کرنے کا
"مسئلہ جب بھی چراغوں کا اٹھا"
مصرع شاید یوں ہوگا، دیکھ لیجئے گا
بہت خوش رہیں
آپ یہ پورا concept سمجھے ہی نہیں،
آپ کے اس سوال سے کہ "1۔ کیا حرف روی اصل لفظ کا حصہ ہوتا ہے یا تقطیع کی اجازت کو استعمال کر کے کسی بھی لفظ کے ساتھ الف کا وصال کرا کر اس الف کو روی بنا دیا جاتا ہے؟ اگر ایسا جائز ہے تو کسی مستند کتاب کا حوالہ دیں۔"
محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے شاید میرا مضمون پڑھا...
پوشیدہ رازِ عشق چلا جائے تھا، سو آج
بے طاقتی نے دل کی، وہ پردہ اٹھا دیا
تھی لاگ اُس کی تیغ کو ہم سے، سوعشق نے
دونوں کو معرکے میں گلے سے ملا دیا
مدت رہے گی یاد ترے چہرے کی جھلک!
جلوے کو جس نے ماہ کے، جی سے بھلا دیا
کیا کہنے صاحب!
بہت عمدہ انتخاب پر ڈھیر ساری داد قبول کیجئے
تشکّر
بہت خوش رہیں
١)- قافیہ سے، وہ ہم حرکت، اور ہم اعراب الفاظ مراد ہیں جو کسی غزل یا نظم کے مصرع اول اور مصرع ثانی اور مصرع ہائے ثانی میں ردیف سے پہلے استعمال میں لائے جاتے ہیں
مگر قافیہ پورا کلمہ نہیں، بلکہ کلمے کا ایک جزو ہوتا ہے
٢ )-اشعار میں قافیہ کا ایک بڑا حُسن یہ ہے کہ ایک ہی لفظ سے ردیف اور قافیہ کا...
غزل
عدیم ہاشمی
آیا ہوں سنگ و خشت کے انبار دیکھ کر
خوف آ رہا ہے سایۂ دیوار دیکھ کر
آنکھیں کھُلی رہی ہیں مِری انتظار میں
آئے نہ خواب دیدۂ بیدار دیکھ کر
غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں
آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر
کیا علم تھا پھسلنے لگیں گے مِرے قدم
میں تو چلا تھا راہ کو ہموار د...
غزل
ثمینہ راجہ
ہم کسی چشم فسُوں ساز میں رکھے ہوئے ہیں
خواب ہیں،خواب کے انداز میں رکھے ہوئے ہیں
تاب، انجامِ محبت کی بھلا کیا لاتے!
ناتواں دل، وہیں آغاز میں رکھے ہوئے ہیں
جلتے جائیں گے ابھی اور چراغوں سے چراغ
جب تری انجمنِ ناز میں رکھے ہوئے ہیں
اے ہوا! اور خزاؤں کے علاوہ کیا ہے؟...
غزل
احسان دانش
اگرچہ خلدِ بریں کا جواب ہے دنیا
مگر خدا کی قسم ایک خواب ہے دنیا
سحر پیامِ تبسم ہے ، شام اذنِ سکوت
شگوفہ زار کا فانی شباب ہے دنیا
لرز رہی ہے فضا میں صدائے غم پرور
ترنماتِ فنا کا رباب ہے دنیا
جہاں کی عشرتِ فانی پہ اعتبار نہ کر
شبِ بہار کا مستانہ خواب ہے دنیا
یہاں کی شام ہے اک...
غزل
منظر اعجاز
تھکن سے چُور ہوئے حوصلے سفر والے
اُڑان بھُول گئے، سارے بال وپر والے
یقیں کے دائرے سمٹے، تو اِس قدر سمٹے
گماں کے شہر میں بسنے لگے نظر والے
مسامِ جاں میں، جو گل کی طرح مہکتے تھے
اُڑے وہ حرف کتابوں کے آب وزر والے
کہاں وہ بات، جو پھل پات میں تھی خوشبو سی
یہاں تو سائے بھی...
غزل
شفیق خلش
دوستی جب بھی کچھ بتاں سے رہے
دشمنی میری اک جہاں سے رہے
بحر میں تشنگی کے ڈوب گیا
لمحہ بھر بھی جو وہ نہاں سے رہے
روز تہمت کا سامنا ہو جہاں
کوئی خوش بھی وہاں کہاں سے رہے
کرب چہرے نے کردئے ظاہر
زخم دل کے اگر نہاں سے رہے
جن کی فرقت نے کردیا بوڑھا
وہ تصّور میں کیا جواں سے...
غزل
شفیق خلش
عزم سارے ہی رائیگاں سے رہے
خاک سر پرجو سائباں سے رہے
خاک میں مِل گئے وہ سب آمر
اس زمیں پر جو آسماں سے رہے
بس یہ خواہش ہے دل میں حاکم کی
جانشیں میرا خانداں سے رہے
ایسے لوگوں کا اعتبارہی کیا
جو ارادوں میں خونچکاں سے رہے
روند ڈالیں نمودِ گلشن کو
دشمنی ایسی گلستان سے رہے...
غزل
شفیق خلش
غمِ حیات سے کب قلْب ہمکنار نہیں
خدا کا شکر، ضمیر اپنا داغدار نہیں
تمھارے ہجرمیں دل کو ذرا قرار نہیں
غمِ جہاں کی طرح تم سے بھی فرار نہیں
ہرایک چیزمیں ہوتی ہے کچھ کمی بیشی
بس ایک غم میں تمھارے ہی اختصار نہیں
بھروسہ غیر پہ رکھیں، کہاں رہا ممکن
خود اپنے گھرمیں کسی کا جب اعتبار...