غزل
حُسین انجُم
خوشبو کسی بدن کا ابھی میرے بر میں ہے
گونجی ہُوئی صدا کوئی دِیوار و در میں ہے
کُشتہ ہیں اپنی فکرِ تغافل شعار کا
سودا کسی کی زُلف کا کب اپنے سرمیں ہے
ہر آئینے کو نقشِ تحیّر بنا دیا
وہ نقش کون سا دل آئینہ گر میں ہے
شورِ نشور جس کے مقابل ہے دم بخُود
ایسا سکوت دامنِ قلب...
سید صاحب بہت ممنون ہوں انتخاب کی پذیرائی اور داد پرجو دلی طمانیت کا موجِب ہوا
خوشی ہوئی کہ منتخبہ غزل آپ کو پسند آئی، بالا شعر واقعی بہت خوب ہے
تشکّر
بہت شاداں اور فرحاں رہیں
فاتح صاحب! یہ شعر :
یہ تو دیکھ خدا نے تجھ کو دوست دیے ہیں کیسے کیسے
ایک محبت چھینی تجھ سے کتنی ڈالی جھولی میں
کا پہلا مصرع مِرے خیال میں یوں کرنے سے رواں اور صحیح رہتا ہے کہ :
یہ تو دیکھ خدا نے تجھ کو کیسے کیسے دوست دیے
ایک محبت چھینی تجھ سے کتنی ڈالی جھولی میں
اگرشعرکو اور مربوط کرنا چاہیں...
غزلِ
شفیق خلش
وہ، جس کی یاد میں نیناں ہمارے ترسے رہے
اب اُس وطن کو بھی جانے سے، جاں کے ڈرسے رہے
جہاں میں جن کی توسط سے بے ثمر سے رہے
ہمارے حال سے وہ بھی تو بے خبر سے رہے
ہُوا نہ ترکِ وطن سے بھی کچھ ہمیں حاصل
دیارغیر میں آکر بھی در بہ در سے رہے
خدا گواہ ہے، کہ رہنا یہاں نہیں تھا...
ہمارا اور عالم، ہم کو اِس عالم سے کیا مطلب
کسی سے کیا غرض ہم کو، کسی کو ہم سے کیا مطلب
عرق آلودہ عارض تیرے دیکھوں، اے گلستاں رُو
مجھے کیا کام گلشن سے، گل و شبنم سے کیا مطلب
جو یہ سمجھےکہ، ملتا ہے وہی، جو کچھ ہے قسمت میں !
رہا اُن کو، ظفر پھر فکرِ بیش و کم سے کیا مطلب
بہت ہی خوب !
تشکّر...
جناب سید صاحب !
اظہار خیال کے لئے ممنوں ہوں
مرحوم حسین انجم صاحب کے اِن اشعار میں کوئی معانی آفرینی تو نہیں
لیکن اشعار میں کیفیت کے اظہارِ خوب نے، انہیں یہاں پیش کرنے پر مجھے اُکسایا
پہلےشعر کے مصرع اولیٰ میں جو سہو یا فروگزاتِ بستگی ہے اس پر تو میں کچھ نہیں کرسکتا
ہاں آخری شعر کے مصرع اولیٰ...
ظلمت را بر رُخ پریشاں کردہ ای
زیرِ ظلمت ماہِ تاباں کردہ ای
از قد ومت بسترِ شب خواب را
رشکِ اورنگِ سلیماں کردہ ای
از گُل و برگِ لب و رُخسار خود
صحنِ عالم را گُلِستاں کردہ ای
از فروغِ مے رُخ گُلنار را
شعلہٴ شمعِ شبستاں کردہ ای
حُسین انجُم
زُلفوں کو جب بھی رُخ پہ پریشاں سا کردیا
ظُلمت کے...
غزل
حُسین انجُم
مہتاب تھا طالع مِرے گھر رات سے پہلے
چھائی تھی گھٹا زُلف کی برسات سے پہلے
لِیں عارضِ گلُرنگ کی زُلفوں نے بلائیں
جب سر ہُوا تسلیم میں خم ہاتھ سے پہلے
آباد ہے قدموں سے جو اب پیرِ مُغاں کے
تھا شیخ کا مسکن وہ خرابات سے پہلے
آنکھوں سے عیاں دل کا تقاضہ تو نہیں تھا
چھائی جو...