غزل
بہادرشاہ ظفر
کیا کہیں اُن سے، بُتوں میں ہم نے کیا دیکھا نہیں
جو یہ کہتے ہیں! سُنا ہے، پرخُدا دیکھا نہیں
جب سے دیکھا ہے تِرے ابرُو کو ہم نے مہ جبِیں
ماہ کو تو آسماں پر آنکھ اُٹھا دیکھا نہیں
پہلے ہی سے حُسن کا اپنے ہے تجھ کو اِک غرور
آئینہ ، تُو نے ابھی اے خود نُما دیکھا نہیں
خوف ہے...
غزلِ
شفیق خلش
نہ بوجھ یوں دلِ مُضطر پہ اپنے ڈال کے رکھ
دُکھوں کوگوشوں میں اِس کے نہ تُو سنبھال کے رکھ
ہرایک شے پہ تو قدرت نہیں ہے انساں کو
شکستِ دل کوبصورت نہ اک وبال کے رکھ
گِراں ہیں رات کےآثار، ذہن دل کے لئے
سُہانے یاد کے لمحے ذرا نکال کے رکھ
میں جانتا ہوں نہیں دسترس میں وہ میری
ہَوا...
غزل
شفیق خلش
چراغِ دل تو ہو روشن، رسد لہو ہی سہی
' نہیں وصال میسّر تو آرزو ہی سہی '
کوئی تو کام ہو ایسا کہ زندگی ہو حَسِیں
نہیں جو پیارمقدّر، توجستجو ہی سہی
یہی خیال لئے، ہم چمن میں جاتے ہیں
وہ گل مِلے ںہ مِلے اُس کے رنگ و بُو ہی سہی
عجیب بات ہے حاصل وصال ہے نہ فِراق
جو تیرے در پہ...
بے رحم وار چند زنی غمزہ بر دلم
وہ کیں دل است آخر آماج تیر نیست
مفعول ----- فاعلات---- مفاعیل------ فاعلن
بے رحْم --- وار چند --- زنی غمزہ --- بر دِلم
مفعول------- فاعلات----- مفاعیل ----- فاعلا ن
وہ کی دِ --- لس ت آ خ --- رِ آ ما ج ----- تی ر نیس
نیست کی " ت " تقطیع میں بوجہ اصولِ سوئم...
فرخ صاحب جواب کے لئے ممنون ہوں
شاعری میں سخن فہمی یا شعر فہمی ہمیشہ سے ہی دلچسپ رہا ہے
خوبی اس میں یہ ہے کہ ہر قاری اپنی سمجھ اور فہم سے مفہومِ شعراخذ کرتا ہے
تاراجِ چشمِ ترکِ بُتاں کیوں نہ ہو یہ دل!
غارت کرے ہے ملک کو فرقہ سپاہ کا
میں نے بالا شعر کو یوں لیا کہ:
تاراج (برباد) یہ دل ...
کوئی فریبِ وفا ہی میں مبتلا رکھتا
تو اُس کے جور وجفا پربھی شادماں رہتے
کسی کے ایک اشارے پہ جل بُجھے ہوتے
بلا سے بعد کے منظر دُھواں دُھواں رہتے
کیا کہنے !
صائمہ شاہ صاحبہ !
بلا کی مربوط ، اس خُوب غزل کی عنایت پر تشکّر اور بہت سی داد قبول کیجیے
آپ کی اس پیش کردہ غزل نے، بہت لطف دیا
بہت شاد رہیں
فرخ صاحب!
غزل اُس زمانے میں رائج زبان اور طریقتِ گفتن یا بستگی کا بہت خوب نمونہ ہے!
پیش کرنے پر بہت سی داد قبول کیجئے
تاہم
تشریحِ شعر یا کچھ معاونت سے اشعار سے صحیح لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے
جل کر تُو اے پتنگ گرا پائے شمع پر
ہوں داغ، عذر دیکھ کے تیرے گناہ کا
داغ ، شاید بہ معنی رقابت ، جلن یا...