غزلِ
مرزا اسداللہ خاں غالب
بےاعتدالیوں سے سُبک سب میں ہم ہوئے
جتنے زیادہ ہوگئے، اُتنے ہی کم ہوئے
پنہاں تھا دامِ سخت، قریب آشیان کے
اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
ہستی ہماری، اپنی فنا پر دلِیل ہے
یاں تک مِٹے کہ آپ ہم اپنی قسم ہوئے
سختی کشانِ عشق کی پُوچھے ہے کیا خبر
وہ لوگ رفتہ...
غزلِ
مولانا حسرت موہانی
گُزر گئی حد سے پائمالی، عتابِ ترکِ کلام کب تک
رہے گی مسدُود اے سِتم گر! رہِ پیام و سلام کب تک
بہت ستاتی ہے اُس کی دُوری، تلافیِ غم بھی ہے ضروری
ہوجلد صبحِ وصال یارب، رہے گی فُرقت کی شام کب تک
قفس میں صیّاد بند کردے، نہیں تو بے رحم چھوڑ ہی دے
میانِ اُمّید وبیم آخر،...
حسان خان صاحب!
تشکّر اس اظہارِ خیال اور ہمت افزائی پر !
تمام تر کریڈٹ وارث صاحب کو جاتا ہے۔ (شکریہ وارث صاحب)
کہ یہاں، بصورت ترجمہ، مجھے اسے منظوم کرنے کا مواد فراہم رہا
بہت شاداں رہیں
تو مری جان گر نہیں آتی
زیست ہوتی نظر نہیں آتی
حالِ دل مثلِ شمع روشن ہے
گو مجھے بات کر نہیں آتی
ہر دم آتی ہے گرچہ آہ پر آہ
پر کوئی کارگر نہیں آتی
کیا ہی کہنے صاحب!
ایک بہت اچھی غزل کے انتخاب پر بہت سی داد قبول کریں
بالا اشعار نے بہت ہی لطف دیا
تشکّر شیئر کرنے کے لئے
بہت خوش رہیں
عشق سے کیا ہے تجھے شکل تری کہتی ہے
حُسنِ تقریر کو آہیں دمِ تقریر نہ کھینچ
کیا کہنے صاحب!
عمدہ انتخاب جناب !
بہت سی داد اور تشکّر شیئر کرنے پر
بہت شاداں رہیں
غزل
حسرت موہانی
مجھ کو خبر نہیں کہ مِرا مرتبہ ہے کیا
یہ تیرے التفات نے آخر کیا ہے کیا
ملتی کہاں گداز طبیعت کی لذتیں
رنجِ فراق یار بھی راحت فزا ہے کیا
حاظرہے جانِ زار جو چاہو مجھے ہلاک
معلوم بھی تو ہو کہ تمہاری رضا ہے کیا
ہُوں دردِ لادوائے محبت کا مبتلا
مجھ کو خبر نہیں کہ دوا کیا، دُعا...