اے شوق، میری اُس کی یک رنگیاں نہ پُوچھو
یہ جان لو، دُوئی کا پردہ اُٹھا ہوا تھا
سبحان اللہ!
بہت خوب صاحب! کیا ہی خوبصورت غزل عنایات کی ہے آپ نے
بہت تشکّر اور بہت سی داد آپ کے ذوق خوب پر
نجانے کہاں سے یہ لطف پارے آپ ہم سب کی نذر کرتے ہیں،
آپ کے انتخاب کا جواب نہیں
بہت خوش رہیں صاحب ، اور لکھتے رہیں
غزلِ
شفیق خلش
آنکھوں کی پُوری ہو یہ عبادت رہی سہی
پڑھ لیں رُخوں پہ لِکھّی عبارت رہی سہی
کب تک ہو چِلمَنوں سے عَطَا حُسنِ خِیرہ کُن
مِل جائے اب نظَر کو اجازت رہی سہی
بے پردَگِی کی آس لگائے ہُوئے ہے دِل!
ہو دُور درمیاں سے قباحت رہی سہی
اب تاب ہی کہاں، کہ سَہے بندِشیں کوئی
حاصِل ہو دِل کو دِل...
میرے سینے پر وہ سر رکھے ہوئے سوتا رہا
جانے کیا تھی بات! میں جاگا کیا، روتا رہا
رونے والوں نے اُٹھا رکھا تھا گھر سر پر، مگر
عمر بھر کا جاگنے والا، پڑا سوتا رہا
بہت خُوب۔
فاتح صاحب !
بشیر بدر صاحب کی ایک اچھی غزل شیئر کرنے پر تشکّر اور
انتخاب پر بہت سی داد قبول کیجئے
بہت شاد رہیں صاحب...
غزل
اسداللہ خاں غالب
دلِ ناداں تُجھے ہُوا کیا ہے
آخر اِس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مُشتاق اور وہ بیزار
یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی منْہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پُوچھو، کہ مُدّعا کیا ہے
جب کہ تُجھ بِن نہیں کوئی موجُود
پھر یہ ہنگامہ، اے خُدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ...
حسان خان صاحب !
لطف آمیز اور بہت خوب انتخاب کے لئے تشکّر
تسکینِ دل کی خاطر کافی تھا یہ بھی جوہر
وہ کاش پوچھ لیتے کیا تیرا مدعا تھا
مقطع میں 'تیرا' کی جگہ مجھے "میرا" زیادہ مناسب و محل، لگتا ہے
جو میری کم فہمی بھی ہو سکتی ہے۔
بہرحال، غزل لاجواب ہے!
شریک لطف کرنے پر ایک بار پھر سے...