غزلِ
فرح جعفری
اک دولتِ یقین تھی جو، اب پاس بھی نہیں
لیکن یہاں کسی کو یہ احساس بھی نہیں
برسوں سے ہم کھڑےہیں اُسی آئینے کے پاس
وہ آئینہ جو چہرے کا ، عکاس بھی نہیں
رنج والم کی اِس پہ ہے تحریر جا بجا
یہ زندگی، جو صفحۂ قرطاس بھی نہیں
ہر چند ہم نے مانگیں دُعائیں بہار کی
حالانکہ ہم...
غزلِ
قمر جلال آبادی
یہ دردِ ہجر اور اُس پر سحر نہیں ہوتی
کہیں اُدھر کی تو دنیا اِدھر نہیں ہوتی
نہ ہو رہائی قفس سے، اگر نہیں ہوتی
نگاہِ شوق تو بے بال و پر نہیں ہوتی
ستائے جاؤ نہیں کوئی پوچھنے والا
مٹائے جاؤ کسی کو خبر نہیں ہوتی
نگاہِ برق عِلاوہ مِرے نشیمن کے
چمن کی اور کسی شاخ پر نہیں...