گیلانی صاحبہ !
آپ کی چسپاں کردہ غزل سے، مومن خاں مومن کی غزل
"ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے"
یاد آگئی۔
اسی زمین میں یہ آپ کی لگائی غزل مرزا اسداللہ خاں غالب کی تو نہیں لگ رہی ہے، یا یوں کہ میری نظر سے نہیں گزری۔
کیا کوئی اور غالب صاحب ہیں یہ کیا؟
جواب کے لئے ممنوں ہُوں گا
بہت خوش رہیں
غزل
فانی بدایونی
گُزرے گی اب نہ غم کا مداوا کئے بغیر
بنتی نہیں اَجَل سے تقاضہ کئے بغیر
دل کامیابِ شوق ہے بے منّتِ نِگاہ
جلوے ہیں دِلفریب تماشا کئے بغیر
الله رے اعتمادِ محبّت، کہ آج تک
ہر درد کی دوا ہیں وہ اچھّا کئے بغیر
وہ جان ہی نہیں جو نہ ہو جائے نذرِ دوست
دل ہی نہیں ہے اُس کی...
سید صاحب
بہت خوب !
ایک اچھے، سادہ اور رواں انتخاب پر بہت سی داد قبول کیجیے ،
خاص طورسے اس شعرنےبہت لطف دیا :
بعد مُدّت کے مِلا آج وہ پہلے کی طرح
اور اِس بار اُسے میں نے کہا کچُھ بھی نہیں
:)
۔۔۔۔
ہم ہی ٹھہرے ہیں سزا وار ، خطا کچھ بھی نہیں
تُوسمجھتا ہے تِرے بعد ہُوا کچھ بھی نہیں
بالا مطلع...
اب نہ دل مانوس ہے ہم سے نہ خوش ہیں دل سے ہم
یہ کہاں کا روگ لے آئے تِری محفل سے ہم
ہائے وہ ہر سُو نگاہی، وہ جنُوں وہ شورَشیں
بے دلی یہ تو بتا پھر کب ملیں گے دل سے ہم
سیماب اکبرآبادی
دیارِ داغ و بیخود، شہرِ دہلی چھوڑ کر تجھ کو
نہ تھا معلوم یوں روئے گا دل شام و سحر تجھ کو
کہاں مِلتے ہیں دنیا کو کہاں مِلتے ہیں دنیا میں!
ہُوئے تھے جوعطا، اہلِ سُخن اہلِ نطر تجھ کو
کیا کہنے!
تشکّر شیئر کرنے پر
بہت خوش رہیں