اُس تشنہ لب کی نیند نہ ٹُوٹے دُعا کرو
جس تشنہ لب کو خواب میں دریا دِکھائی دے
کیا حُسن ہے، جمال ہے، کیا رنگ رُوپ ہے
وہ بِھیڑ میں بھی جائے تو تنہا دِکھائی دے
کرشن بہاری نُورؔ لکھنوی
تہوں میں دل کے جہاں کوئی واردات ہوئی
حیاتِ تازہ سے، لبریز کائنات ہوئی
تم ہی نے باعثِ غم بارہا کِیا دریافت!
کہا تو رُوٹھ گئے، یہ بھی کوئی بات ہوئی
فراق گورکھپوری
بَلا میں پھنستا ہےدل، مُفت جان جاتی ہے
خُدا کسی کو نہ لیجائے اُس گلی کی طرف
نِگاہ پڑتی ہے اُن پرتمام محفل کی
جو آنکھ اُٹھا کے نہیں دیکھتے کسی کی طرف
ذرا سی دیر ہی ہو جائے گی تو کیا ہوگا
گھڑی گھڑی نہ اُٹھاؤ نظر گھڑی کی طرف
اکبرالٰہ آبادی
ناتوانی مِری دیکھی، تو مصوّر نے کہا
ڈر ہے، تم بھی کہیں کِھنچ آؤ نہ تصویر کے ساتھ
میں ہُوں کیا چیز، جو اُس طرز پہ جاؤں اکبر
ناسخ و ذوق بھی، جب چل نہ سکے میر کے ساتھ
اکبرالٰہ آبادی
پھر دَمِ دِید رہے چشم ونظر دِید طلب
پھر شبِ وصْل مُلاقات نہ ہونے پائی
فیض سر پر جو ہر اِک روز قیامت گُزری!
ایک بھی، روزِ مکافات نہ ہونے پائی
فیض احمد فیض
مردوں کو جلاتی ہے تری ناز کی آواز
اعجاز کا اعجاز ہے آواز کی آواز
پہلے مصرع کی جیم کو دئے کسرہ ہٹانے سے شعر دلچسپ ذومعنویت اور ایہام کاحامل ہو جاتا ہے :)
تشکّر شیئر کرنے پر
بہت خوش رہیں
جو، او پہلو نشِیں! تُو کرگیا پہلو تہی ہم سے
جُدا پہلو سے دم بھر دردِ پہلو ہو نہیں سکتا
کیا کہنے صاحب
بالا شعرسے ، حفیظ ہوشیارپوری صاحب کا کیا ہی خُوب (ذیل میں دِیا ہُوا) شعر یاد آگیا:
زمانے بھر کے غم یا اک تِرا غم
یہ غم ہوگا تو کتنے غم نہ ہونگے
تشکّر شیئر کرنے پر صاحب :)
بہت خوش رہیں
غزلِ
فیض احمد فیض
شرح بے دردیِ حالات نہ ہونے پائی
اب کے بھی دل کی مدارات نہ ہونے پائی
پھر وہی وعدہ جو اقرار نہ ہونے پایا
پھر وہی بات جو اثبات نہ ہونے پائی
پھر وہ پروانے جنہیں اذنِ شہادت نہ مِلا
پھر وہ شمعیں کہ جنہیں رات نہ ہونے پائی
پھر وہی جاں بہ لبی لذّتِ مے سے پہلے
پھر وہ...
گہرے سُروں میں عرضِ نوائے حیات کر
سینے پہ ایک درد کی سِل رکھ کے بات کر
امجد، نشاطِ زیست اِسی کشمکش میں ہے
مرنے کا قصد، جینے کا عزم، ایک سات کر
مجید امجد