بلا کے شوخ ہیں، بے طرح کام کرتے ہیں
نظر مِلاتے ہی قصّہ تمام کرتے ہیں
اُٹھو اُٹھو درِ دولت سے عاشقو! اُٹّھو
چلو چلو کہ وہ دیدارعام کرتے ہیں
عبدالمجید بیدل
پھر جیب کو حوس ہے کہ ہو، یوں وہ تار تار
ممنُونِ بخیہ گر نہ طبیعت ہُوا کرے
پھر گرم آہِ شعلہ فشاں ہے دلِ حزیں
پھر گریہ چاہتا ہے کہ طُوفاں بَپا کرے
مست گیاوی