درد کی راہیں نہیں آساں، ذرا آہستہ چل
اے سبک رو، اے حریف جاں! ذرا آہستہ چل
منزلوں پر قُرب کا نشہ ہَوا ہو جائے گا
ہمسفر وہ ہے تو اے ناداں! ذرا آہستہ چل
نامرادی کی تھکن سے جسم پتھر ہو گیا
اب سکت کیسی دلِ ویراں! ذرا آہستہ چل
جام سے لب تک ہزاروں لغزشیں ہیں خوش نہ ہو
اب بھی محرومی کا ہے امکاں، ذرا...