غزل
از بس کہ چشمِ تر نے بہاریں نکالیاں
مژگاں ہیں اشکِ سرخ سے پھولوں کی ڈالیاں
دل میں خیالِ زلف سے طوفاں نہ کیوں کہ ہو
اکثر گھٹائیں اٹھتی ہیں ایدھر سے کالیاں
کیا اعتماد یاں کے وکلا عزل و نصب کو
ایدھر تغیّراں تو اُدھر ہیں بحالیاں
اس کی کمر تو کاہے کو پتلی ہے اس قدر
یہ ہم سے شاعروں کی ہیں نازک...