آسرے توڑتے ہیں ، کتنے بھرم توڑتے ہیں
حادثے دل پہ مرے دُہرا ستم توڑتے ہیں
آ ستینوں میں خداوند چھپا کر اتنے
لوگ کن ہاتھوں سے پتھر کے صنم توڑتے ہیں
اُٹھ گئی رسمِ صدا شہر ِ طلب سے کب کی
اب تو کشکولِ ہوس بابِ کرم توڑتے ہیں
جھوٹی تعبیر کے آرام کدے سے تو نکل
خواب کتنے تری دہلیز پہ دم توڑتے ہیں...