ہم خاک نشینوں کو نئی خاک ملی ہے
جو چھوڑ کر آئے وہی املاک ملی ہے
ہم سادہ روش لوگ بدلتے نہیں چولے
میلی ہی نہیں ہوتی وہ پوشاک ملی ہے
پہنے ہوئے پھرتے ہیں تہِ جبہ و دستار
در سے جو ترے خلعتِ صد چاک ملی ہے
رکھی ہے بصارت کی طرح دیدہِ تر میں
قسمت سےہمیں نعمتِ نمناک ملی ہے
سونے کے بدل بکتی ہے بازار...