لوگوں نے ایک واقعہ گھر گھر بنادیا
اُس کی ذرا سی بات کا دفتر بنادیا
پہرے قیامتوں کے لگا کر زبان پر
دل کو ترے خیال نے محشر بنادیا
صادق تھے ہم بھی جذبہء منزل میں اسقدر
رستے کا ہر سراب سمندر بنادیا
لے لے کے نقشِ بندگی دہلیز سے تری
ہم نے جبین ِ عشق کا زیور بنادیا
شہر ِ وصال دیکھنا چاہا پلٹ کے...