کمال ہے!
میں نے انسٹال کیا تو انٹرنیٹ کا ڈرائیور غائب
اور جب اگلے دن بازار سے ڈی وی ڈی لا کے ڈرائیور کیا تو سسٹم کام کرنا چھوڑ گیا۔
مجبوراً دکان پہ لیجا کر دوبارہ سے ونڈوز 7 کروانی پڑی۔
آج ٹی وی پہ ایک پروگرام کے دوران یہ سننے کو ملا کہ
"بحرِ شکست اردو میں صرف علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے استعمال کی ہے، بالِ جبریل کی نظم مسجدِ قرطبہ میں۔"
مسجد قرطبہ
(ہسپانیہ کی سرزمین ، بالخصوص قرطبہ میں لکھی گئی)
سلسلۂ روز و شب ، نقش گر حادثات
سلسلۂ روز و شب ، اصل حیات و ممات
سلسلۂ...
جب تری جان ہو گئی ہو گی
جان حیران ہو گئی ہوگی
شب تھا میری نگاہ کا بوجھ اس پر
وہ تو ہلکان ہو گئی ہوگی
اس کی خاطر ہوا میں خار بہت
وہ میری آن ہو گئی ہو گی
ہو کے دشوار زندگی اپنی
اتنی آسان ہو گئی ہوگی
بے گلہ ہوں میں اب بہت دن سے
وہ پریشان ہو گئی ہوگی
اک حویلی تھی دل محلے میں
اب وہ ویران ہو...
معذرت
(ایک دوست کی شادی پر)
میں نے چاہا تری شادی پہ کوئی نظم کہوں
جس کے الفاظ میں پا زیب کی جھنکاریں ہوں
جس کے ہر بند میں رقصاں ہوں بہاریں نغمے
جس کے شعروں میں خیابانوں کی مہکاریں ہوں
میں نے چاہا تری شادی پہ کوئی گیت کہوں
جس کی تشبیہوں میں ہنستے ہوئے پیمانے ہوں
جس کے انداز پہ طاری ہو شرابوں...
منسُوبہ سے!
تو نے دیکھا ہی نہیں مجھ کو تجھے کیا معلوم
وقت نے آج کسے سونپ دیا ہے تجھ کو
کس کے دامن سے ہے باندھا گیا پلّو تیرا
کس نے تقدیر سے وابستہ کیا ہے تجھ کو
تیرے ہونٹوں پہ تو ہیں شرم و حیا کی مہریں
تیرے ماں باپ نے کیوں نرخ ترا بول دیا
کالے بازار میں نیلام اُٹھا کر تیرا
سبز باغوں کے تصوّر...
میں نے اقبال کو مرتے دیکھا
تحریر: سر محمد شفیع
علامہ اقبال کی وفات 21اپریل 1938ء کو صبح کے کوئی پانچ بجے واقع ہوئی، اور مجھے اس بات کا شرف حاصل ہے کہ میں اُن تین اشخاص میں سے ایک ہوں جو علامہ کی موت کی شہادت دے سکتے ہیں ۔ علامہ مرحوم کے انتقال کے وقت میرے سوا اور دو اشخاص بھی تھے جن میں سے...
ایک منظر
دُور کچھ ماتمی نعروں سے فضا گونج اُٹھی
چند مجذوب سے لوگوں کا الم کیش گروہ
(کچھ سیہ پوش تماشائی بہ اندازِ جلوس)
چادرِ گُل سے سجائے ہوئے اعلام لیے!
دمبدم نیند میں ڈوبے ہوئے کوچوں کی طرف
چیختا پیٹتا بڑھتا ہی چلا جاتا ہے
یک بیک کھلنے لگے بند دریچوں کے کِواڑ
چلمنیں کانپتی باہوں کے سہارے...
لختئ 1؎
اَدھ کٹے بالوں پہ افشاں کے ستارے لرزاں
کھردرے گالوں پہ غازے کی تہیں ہانپتی ہیں
سرد و بے جان سے چہرے پہ تھرکتی آنکھیں
جیسے مرگھٹ میں چراغوں کی لَویں کانپتی ہیں
ٹوٹتے جسم میں لہرانے کی ناکام اُمنگ
کسی سُوکھی ہوئی ٹہنی کا جھکاؤ جیسے
لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کی گراں رفتاری
خشک ہوتی ہوئی ندّی...