گِن گِن تارے لنگھدیاں راتاں
سپّاں وانگر ڈنگدیاں راتاں
رانجھا تخت ہزارہ بُھلیا
بُھلیا ں نئیں پر جھنگ دیاں راتاں
اکھیاں وچ جگراتے رہندے
سُولی اُتے ٹنگدیاں راتاں
ہور کسے ول جان ناں دیون
اپنے رنگ وِچ رنگدیاں راتاں
مینوں کوئی سمجھ ناں آوے
آئیاں کہدے ڈھنگ دیاں راتاں
برؔی نظامی یاد نئیں مینوں...
ادا شناس ترا بےزباں نہیں ہوتا
کہے وہ کس سے کوئی نکتہ داں نہیں ہوتا
سب ایک رنگ میں ہیں مے کدے کے خورد و کلاں
یہاں تفاوت پیر و جواں نہیں ہوتا
قمار عشق میں سب کچھ گنوا دیا میں نے
امید نفع میں خوف زیاں نہیں ہوتا
سہم رہا ہوں میں اے اہل قبر بتلا دو
زمیں تلے تو کوئی آسماں نہیں ہوتا
وہ محتسب ہو کہ...
آگے تو رسم دوستی کی تھی جہاں کے بیچ
اب کیسے لوگ آئے زمیں آسماں کے بیچ
میں بے دماغ عشق اٹھا سو چلا گیا
بلبل پکارتی ہی رہی گلستاں کے بیچ
تحریک چلنے کی ہے جو دیکھو نگاہ کر
ہیئت کو اپنی موجوں میں آب رواں کے بیچ
کیا میل ہو ہما کی پس از مرگ میری اور
ہے جائے گیر عشق کی تب اُستخواں کے بیچ
کیا...
سن ری شیش محل کی مہلا! آیا رمتا جوگی
اک میٹھی مسکان کے بدلے من کا منکا لو گی
دیکھ رہا ہوں دن کو بھی آکاش پہ سبز ستارہ
یوں لگتا ہے، شام سے پہلے ٹوٹ کے بارش ہو گی
آج بھی من تن ڈولے سن کر، سب کا تن من ڈولے
تیرے نینوں میں سنولاہٹ سی ہے، بین سنو گی
کاہے پیڑ اور پنچھی جانیں، تجھ کو بُت مرمر کا...
کہتے سنتے آئے ہیں کہ پرانی عادتیں بھی پاؤں کی زنجیر ہوتی ہیں۔ انسان ان سے جان چھڑانے کی جتنی بھی کوشش کرے، صورت حال "چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی" والی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریٹائر بزرگ گھر کے اندر اور بےروزگار نوجوان گھر کے باہر ہر کسی کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔ خیر ہمارا بزرگ افراد...
ہم جیسے تیغ ظلم سے ڈر بھی گئے تو کیا
کچھ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں سر بھی گئے تو کیا
اٹھتی رہیں گی درد کی ٹیسیں تمام عمر
ہیں زخم تیرے ہاتھ کے بھر بھی گئے تو کیا
ہیں کون سے بہار کے دن اپنے منتظر
یہ دن کسی طرح سے گزر بھی گئے تو کیا
اک مکر ہی تھا آپ کا ایفائے عہد بھی
اپنے کہے سے آج مکر بھی گئے تو...
ایک خواب
ایک ہی خواب کئی بار یوں ہی دیکھا ہے میں نے
تو نے ساڑی میں اڑس لی ہیں مری چابیاں گھر کی
اور چلی آئی ہے بس یوں ہی مرا ہاتھ پکڑ کر
گھر کی ہر چیز سنبھالے ہوئے اپنائے ہوئے تو
تو مرے پاس مرے گھر پہ مرے ساتھ ہے سونوںؔ
میز پر پھول سجاتے ہوئے دیکھا ہے کئی بار
اور بستر سے کئی بار جگایا بھی ہے...
ملک (ایک نابغہ شخصیت)
تعارف:
====
السلام علیکم! "ہمارا نام لے کر" آپ ہی ہیں؟
وعلیکم السلام! جی میں ہی ہوں۔ ہم نے حیرانی سے اس نوجوان کو دیکھا جو ہماری میز کے پاس کھڑا ہمارے علاوہ ہر طرف دیکھ رہا تھا۔
ملک : "میرا نام ملک ہے۔" آنے والے نے ہماری طرف متوجہ ہو کر کہا۔
راقم: "اوہ! آپ ہیں۔ کیسے ہیں...
اس دھاگے میں کاہلی پر اشعار پیش کیے جائیں گے۔ تمام آلکسیوں سے حسب توفیق حصہ ملانے کی درخواست ہے۔۔۔۔
پہلے پہل کاہلی کا تذکرہ اساتذہ کی زباں سے۔۔۔
میر تقی میر۔۔۔ موضوع کے لحاظ سے تھکی تھکی میر نہ پڑھا جائے۔۔۔ اپنی مثنوی شکار نامہ میں فرماتے ہیں۔۔۔۔
میری بھی خاطر نشاں کچھ تو کیا چاہیے
میؔر نہیں...
کیا ہے ترکِ دنیا کاہلی سے
ہمیں حاصل نہیں بے حاصلی سے
خراجِ دیہہِ ویراں، یک کفِ خاک
بیاباں خوش ہوں تیری عاملی سے
پرافشاں ہو گئے شعلے ہزاروں
رہے ہم داغ، اپنی کاہلی سے
خدا، یعنی پدر سے مہرباں تر
پھرے ہم در بدر ناقابلی سے
اسؔد قربانِ لطفِ جورِ بیدل
خبر لیتے ہیں، لیکن بیدلی سے
ساری خلقت ایک طرف تھی اور دوانہ ایک طرف
تیرے لیے میں پاؤں پہ اپنے جم کے کھڑا تھا ایک طرف
ایک اک کر کے ہر منزل کی سمت ہی بھول رہا تھا میں
دھیرے دھیرے کھینچ رہا تھا تیرا رشتہ ایک طرف
دونوں سے میں بچ کر تیرے خواب و خیال سے گزر گیا
دل کا صحرا ایک طرف تھا آنکھ کا دریا ایک طرف
آگے آگے بھاگ رہا ہوں...
جو دکھ رہا اسی کے اندر جو ان دکھا ہے وہ شاعری ہے
جو کہہ سکا تھا وہ کہہ چکا ہوں جو رہ گیا ہے وہ شاعری ہے
یہ شہر سارا تو روشنی میں کھلا پڑا ہے سو کیا لکھوں میں
وہ دور جنگل کی جھونپڑی میں جو اک دیا ہے وہ شاعری ہے
دلوں کے مابین گفتگو میں تمام باتیں اضافتیں ہیں
تمہاری باتوں کا ہر توقف جو بولتا ہے...
دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں
گزشتہ دنوں لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ یوں تو ہر کچھ عرصہ کے بعد لاہور کا چکر لگتا رہتا تھا اور ہے۔ لیکن اس بار پنجاب یونیورسٹی جانا تھا۔ میں جامعہ پنجاب کا طالبعلم تو کبھی نہیں رہا لیکن لاہور شہر کے اندر بسے اس شہر سے ہمیشہ سے ایک عقیدت رہی ہے۔ درمیان...
جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے، جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفے کو کوئی نہ سمجھا
جب اس کے کمرے سے لاش نکلی، خطوط...
غزل
یوں تو کوئی دوش نہیں تھا کشتی کا ، پتواروں کا
ہم نے خود ہی دیکھ لیا تھا ایک سراب کناروں کا
جھڑتی اینٹیں سُرخ بُرادہ کب تک اپنے ساتھ رکھیں
وقت چھتوں کو چاٹ رہا ہے ، دشمن ہے دیوارں کا
تیز ہوا نے تنکا تنکا آنگن آنگن دان کیا
گم صُم چڑیا طاق میں بیٹھی سوچ رہی ہے پیاروں کا
سُرخ گلابوں کی رنگت...
محمداحمد بھائی کی ایک طرحی غزل
ہم اپنی حقیقت کس سے کہیں، ہیں پیاسے کہ سیراب ہیں ہم
ہم صحرا ہیں اور جل تھل ہیں، ہیں دریا اور پایاب ہیں ہم
اب غم کوئی، نہ سرشاری، بس چلنے کی ہے تیاری
اب دھوپ ہے پھیلی آنگن میں، اور کچی نیند کے خواب ہیں ہم
ہاں شمعِ تمنّا بجھ بھی گئی، اب دل تِیرہ، تاریک بہت
اب...
یہ مارگلہ ہلز کے دامن سے چوٹی کی طرف جاتا وہ راستہ تھا، جہاں لوگ شاذ ہی قدم رکھتے ہیں۔ فطرت اپنے اصل حسن کے ساتھ موجود تھی۔ پگڈنڈی تھی کہ خیابان کی تفسیر تھی۔ دونوں اطراف سے درختوں نے راستے کو یوں ڈھک رکھا تھا کہ ہلکی بارش کی رسائی زمین تک ناممکن سی ہوگئی تھی۔ بل کھاتا چڑھائی چڑھتا یہ راستہ...
آج ظہیراحمدظہیر صاحب کے توجہ دلانے پر ہم نے دیکھا تو پتا چلا کہ افتخار عارف صاحب کی یہ مشہور زمانہ نظم محفل تو درکنار اردو ٹائپنگ میں ہی میسر نہیں۔ سو ریختہ سے دیکھ کر ٹائپ کر دی۔
پس چہ باید کرد
خواب خس خانہ و برفاب کے پیچھے پیچھے
گرمیٔ شہر مقدر کے ستائے ہوئے لوگ
کیسی یخ بستہ زمینوں کی طرف...
ملاقات کا کوئی بہانہ نہیں ہوتا۔ وجہ تراشنے بیٹھو تو وجہ نہیں ملتی۔ سوچتے ہیں کہ ملاقات کیوں کی جائے۔ آخر ایسا کیا موضوع ہاتھ لگے کہ سب دوبارہ مل بیٹھیں۔ کچھ فرصت کے لمحے دنیا سے چرا کر کچھ بے غرض باتیں بھی کی جائیں۔ لیکن ایسی ملاقاتوں کے لیے وقت نکالنا بھی بڑا مشکل مرحلہ ہے۔ اور ہماری سست طبع تو...
گزشتہ سے پیوستہ:
غائب دماغی بھی" سامنے دھری "والی قبیل سے ہی تعلق رکھتی ہے بلکہ یوں کہنامناسب ہے، "سامنے دھری "والے مقولے کی عملی شکل غائب دماغی ہے۔ انسان جہاں موجود ہوتا ہے۔ وہاں موجود نہیں ہوتا۔ اور وہاں موجو د ہوتا ہے جہاں اسے موجود نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے کبھی بہت سنجیدہ صورتحال جنم...