انکے کے مولفۃ القلوب کے لیے ایک 24x7 چلنے والے ادارے (ادارہ فرحت المسلمین) کا جال بچھایا جائے۔ جہاں لوگوں کی باتوں کو سنا جائے، انکے غم بیماری اور دکھ درد بانٹے کے لیےجدید طرز پر انتظامات کیے جائیں۔ ان کے گھر چلائے جائیں۔
ان کے قرض ادا کیے جائیں۔ ان کے مقدمات کی پیروی کی جائے۔ ان کے شادی کے انتظامات کیے جائیں۔ سارے ملک میں ایسے مقامات فرحت کی تعمیر کی جائے جہاں لوگ ہر موضوع پر گفتگو کر سکیں۔
اس ادارے سے وابستہ اراکین کی تربیت خالص للہیت پر کی جائے کہ جیسے انبیاء عمومی طور پر انسانوں اور امت کے خیر خواہ ہوتے تھے یوں وہ ان کی صحبت میں فرحت پاتے۔
ہی کی تصیح کا شکریہ۔ لیکن جس طرح در دولت مصطفیٰ ﷺ سے غیر مسلم کو بھی ملتا تھا، اسی طرح کچھ ایسا ہدیہ بھی ہو جس سے سب کھائیں۔ سورہ توبہ آیت 60 میں مصرف ہے کہ "اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے"۔ میں سمجھتا ہوں سب ہی مسلمانوں کی تالیف قلب منظور ہے کیونکہ ایمان کمزور ہیں اور اسلام پر دل اور جمانے کی ضرورت ہے۔
آپ سمجھے نہیں۔۔۔ اس بارے تو فقہا بہتر بتائیں گے کہ تالیف قلب اب مصرف ہے کہ نہیں۔ لیکن یہ خیراتی ادارے، مدارس ہسپتالوں کو کس چکر اور تاویل میں زکواتیں جاتی ہیں؟؟؟
شاید آپکا 'ہی' زکوۃ کی تقسیم میں بددیانتی سے ہے؟ ایسا ہے تو افسوس کی خبر ہے۔ فقہا تو نو مسلم کی تالیف قلب ہی مانتے ہیں۔ کراچی میں کڈنی سینٹر والے ڈایالسس مفت کرنے کے لیے زکوۃ لیتے ہیں اور شوکت خانم کینسر کے لیے۔ دیوا، دارالسکون، ایدھی، چھیپا لاوارث بچوں بوڑھوں کو رکھنے کے لیے زکوۃ لیتے ہیں۔
بنوری ٹاون، دعوت اسلامی، دالعلوم کراچی درس نظامی غریب بچوں کو پڑھانے کے لیے۔ میں ان سب مدوں کو جائز مانتا ہوں لیکن کچھ توجہ مسلمانوں کے قلوب پر بھی ہونی چاہے امیر ہوں یا غریب کہ وہ ایمان پر جمیں اور مذید پاک ہوں!
سید رافع کے کوائف نامے کے مراسلے پر تبصرے