پاکستانی انجینئر نے پانی سے گاڑی چلا دی

محمد امین

لائبریرین
تو قصور میڈیا کا ہوا نا۔۔۔ تنقید میڈیا پر کیجئے، لیکن آغا وقار جیسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔۔دوسری بات یہ ہے کہ میں نے جو ویڈیو پوسٹ کی ہے، یہ لوگ بھی تو میدیا پر ہی پیش کئے گئے، اور انکی اس بونگی پر کوئی تنقید نہیں کرتا ، وجہ یہ کہ یہ انینئرنگ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ ہیں اور انکی پشت پر پاکستان انجینئرنگ کونسل جیسا ادارہ ہے۔ لیکن یہی بونگی اگر کسی ڈپلومہ ہولڈر یا بی ٹیک آنر سے سرزد ہو تو سائنس اور ٹیکنالوجی کے ٹھیکیداروں کا ماتھا ٹھنکتا ہے :)

پی ای سی سے تو خود ہم بھی نالاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
پر جناب اب تو پی ای سی نے بی ٹیک آنرکو انجینئرنگ کے لیول کی ڈگری قرار دے دیا ہے۔ اب آپ کیوں نالاں ہیں؟


ہمارے نالاں ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے۔ اور مجھے علم نہیں کہ بی ٹیک کو تسلیم کرلیا ہے یا نہیں، میرے لیے یہ خبر ہے۔۔۔اور انجینئرنگ کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔ کیوں کہ پاکستان میں انجینئرنگ کی تعلیم کا معیار ویسے ہی بہت زبوں حال ہے۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کے خلیل احمد صاحب جیسے لوگ ہیں جو plagiarism کو سپورٹ کرتے ہیں۔۔۔ جب ایک شخص انہیں بتا رہا ہے کہ یہ کٹس انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں پھر بھی وہ اسے جہاز کی ایجاد سے تشبیہ دے رہے ہیں۔۔۔۔ ہائے رے میرا پاکستان۔۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
کیافرماتے ہیں مفتیانِ سائنس بیچ اس مسئلے کے کہ زید نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے پانی سے گاڑی چلا دی ہے اور چلائی بھی ایسے ہے کہ نیوٹونیئن سائنس بھی دلِ شکستہ کو تھام تھام لے۔۔ بکر اس کی حمایت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جس طرح جہاز کی پہلی پرواز دس منٹ کی تھی اس طرح ہم پاکستانی بھی کسی سے کم نہیں ہیں ابھی تھوڑی دیر گاڑی چلائی ہے اگلے پچاس سالوں میں انشاء اللہ عز وجل ایک سلنڈر ہائڈروجن میں واشنگٹن فتح کر کے آجائیں گے۔ یہ ایجاد ایسے وقت میں ہوئی ہے کہ جب باقی مغربی ترقی یافتہ دنیا چین کی طرح افیون پی کر سورہی ہے، اتفاق سے ہم پاکستانیوں نے ساری افیون مغربی ممالک کو بھیج دی تھی تو ہم سونے سے رہ گئے اور ایجاد کرڈالی۔۔۔ عمر اس ایجاد کا سخت مخالف ہے حتیٰ کہ اسے ایجاد تک کہنے کا قائل نہیں۔ عمر کے اس عمل پر زید اور بکر اسے سخت کاہل اور رجعت پسند قرار دے رہے ہیں۔ زید اور بکر کے بقول سائنس کے قوانین پاکستان کے آئین کی طرح انیسویں اور بیسویں ترمیم کی طرح بدلے جاسکتے ہیں۔ براہِ مہربانی مفصل جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور اور عند الناس مشکور ہوں۔۔۔
 
کیافرماتے ہیں مفتیانِ سائنس بیچ اس مسئلے کے کہ زید نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے پانی سے گاڑی چلا دی ہے اور چلائی بھی ایسے ہے کہ نیوٹونیئن سائنس بھی دلِ شکستہ کو تھام تھام لے۔۔ بکر اس کی حمایت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جس طرح جہاز کی پہلی پرواز دس منٹ کی تھی اس طرح ہم پاکستانی بھی کسی سے کم نہیں ہیں ابھی تھوڑی دیر گاڑی چلائی ہے اگلے پچاس سالوں میں انشاء اللہ عز وجل ایک سلنڈر ہائڈروجن میں واشنگٹن فتح کر کے آجائیں گے۔ یہ ایجاد ایسے وقت میں ہوئی ہے کہ جب باقی مغربی ترقی یافتہ دنیا چین کی طرح افیون پی کر سورہی ہے، اتفاق سے ہم پاکستانیوں نے ساری افیون مغربی ممالک کو بھیج دی تھی تو ہم سونے سے رہ گئے اور ایجاد کرڈالی۔۔۔ عمر اس ایجاد کا سخت مخالف ہے حتیٰ کہ اسے ایجاد تک کہنے کا قائل نہیں۔ عمر کے اس عمل پر زید اور بکر اسے سخت کاہل اور رجعت پسند قرار دے رہے ہیں۔ زید اور بکر کے بقول سائنس کے قوانین پاکستان کے آئین کی طرح انیسویں اور بیسویں ترمیم کی طرح بدلے جاسکتے ہیں۔ براہِ مہربانی مفصل جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور اور عند الناس مشکور ہوں۔۔۔
جواب۔۔۔اقول و باللہ التوفیق۔۔۔
زید کا یہ قول بد تر از بول ہے۔۔۔اور عمرو کی شناعت و بطالت پر ابلیسِ لعین بھی انگشت بدندان ہے۔ یہ سب واہیات و خرافات وجاہلانہ اعتقادات و حماقات و بطالات ہیں۔ ان سے احتراز لازم۔ ہاں البتہ بکر بنابریں اعتقادِ خوش اندام و حسن الظن بر عوام کالانعام، لائقِ صد آفرین و تحسین ہے۔
:D
 

محمد امین

لائبریرین
جواب۔۔۔ اقول و باللہ التوفیق۔۔۔
زید کا یہ قول بد تر از بول ہے۔۔۔ اور عمرو کی شناعت و بطالت پر ابلیسِ لعین بھی انگشت بدندان ہے۔ یہ سب واہیات و خرافات وجاہلانہ اعتقادات و بطالات ہیں۔ ان سے احتراز لازم۔ ہاں البتہ بکر بنابریں اعتقادِ خوش اندام و حسن الظن بر عوام کالانعام، لائقِ صد آفرین و تحسین ہے۔
:D

ہاہاہاہاہاہ میلہ لوٹ لیا آپ نے :rollingonthefloor:
 

سویدا

محفلین
واہ ، بہت خوب ! محمد امین کا استفتاء اور اس پر محمود احمد غزنوی کا فتوی
نور علی نور
اس استفتاء کا نام تجویز کیا جاتا ہے :
القول الصواب
فی
مشی السیارۃ بالماء
 

neosaleem

محفلین
بہر حال ۔۔۔۔ ایک بات تہہ ہے کہ یہ بیٹری سے ہائیڈروجن جنریٹ کرتے ہوئے گاڑی چلانا Economically مناسب نہیں ہے۔

ایک اور پہلو جس پر بہت کم تبصرہ ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جناب وقار صاحب کے طریقہ کار میں ہائیڈروجن اگر چہ ڈائر یکٹ جلائی جائے گی مگر پھر بھی ہائیڈروجن بہت زیادہ خطرناک گیس ہے۔ آئے دن کمپریسڈ گیسیز کے سیلنڈرز پھٹنے سے نقصانات بھی سننے میں آتے ہیں۔ میں کچھ لنکس دیتا ہوں اگر دوستوں کو وقت میسر آئے تو کچھ چیزیں یہ بھی دیکھ لیں معلومات میں اضافہ ہوگا۔
سیفٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے
http://policy.rutgers.edu/ceeep/hydrogen/basics/safety.php
پروپین گیس سے متعلق
http://www.propanecarbs.com/propane.html
ہائیڈرو جن گیس سے متعلق

عجب بات یہ ہے کہ انٹر نیٹ پر دیکھا جائے تو بہت سارے لوگ ہیں جنہوں نے یہ تجربے کئے ہیں۔ اور گاڑیاں چلائی بھی ہیں۔ کمرشل کٹس بھی دستیاب ہیں۔ مثلاً http://www.gas4free.com/?hop=isstest
youtube پر اگر hydrogen kit for car لکھ کر چیک کرلیں بہت سارے تجربات ملیں گے۔
Electrolysis فزکس کے ابتدائی اسباق میں سے ہے۔ تقریبآ ہر سمجھ کر پڑھنے والے کو معلوم ہے کہ اس طرح ہائیڈروجن پیدا ہوتی ہے۔
ایسے میں ہمارا ایک بھائی دعواکرتا ہے کہ اس نے یہ ایجاد کیا ہے۔ اور میڈیا وغیرہ پر اس کا اتنا شور شرابا بھی ہوا۔

آغا وقار صاحب کا حامد میر کےCapital Talk پروگرام میں حال بھی دیکھا گیا۔ کسی پہلو سے ٹیکنیکل بات کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں موصوف۔ اور تو اور فزکس کے بنیادی قانون ہی سمجھنے سے کوسوں دور ہیں۔

میرے دوستو اس طریقے سے ایجادات نہیں ہوتیں۔ ذرا سوچئے۔

میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں بلکہ یہ بات کہنا ہے کے آج کا دور ارسطو کا دور نہیں ہے کہ جو نظریہ دیں وہ قابل قبول ہوگا۔ ہر پہلو کو سمجھنے کے بعد ہی صحیح اور جامع ایجاد ہوسکتی ہے۔ تب ہی وہ فائدہ مند ہوگی اور دنیا بھی مانے گی۔
 

عسکری

معطل
میں بھی کبھی کبھی پاکستانی دفاعی تجزیوں کو سن کر سر پیٹ لیتا ہوں :ROFLMAO: جیسے امین بھائی ابھی :laugh:
 

شمشاد

لائبریرین
اور کیا وہ تجزیے میرے جیسے بیٹھ کر ٹی وی پر کرتے ہوں گےجنہیں دفاع کی الف بے بھی معلوم نہیں ہوتی ہو گی۔
 

یوسف-2

محفلین
ہمارے نالاں ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے۔ اور مجھے علم نہیں کہ بی ٹیک کو تسلیم کرلیا ہے یا نہیں، میرے لیے یہ خبر ہے۔۔۔ اور انجینئرنگ کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔ کیوں کہ پاکستان میں انجینئرنگ کی تعلیم کا معیار ویسے ہی بہت زبوں حال ہے۔۔
محمد امین آپ کی بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔ کیا آپ اپنی بات کی وضاحت کرنا چاہیں گے۔ بی ٹیک آنرکو انجینئرنگ کے لیول کی ڈگری قرار دینا، انجینرنگ کے لئے اچھی خبر نہیں ہے یا انجینئرز کے لئے :D
ویسے انصاف کی بات تو یہ ہے کہ بی ٹیک کو ”سینیئر انجینرنگ“ لیلول کی ڈگری قرار دینا چاہئے۔ میں یہ بات مزاحاً نہیں کہہ رہا بلکہ انجینئرنگ کے قومی و کثیر القومی اداروں میں عشروں کے عملی تجربہ کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ کوئی ”رننگ انجینئرنگ صنعتی ادارہ“ صرف ”انجینئرز“ کبھی نہیں چلا سکتے، جب تک انہیں ایسوسی ایٹس انجینئرز (ڈی اے ای) اور بی ٹیک حضرات کا عملی تعاون حاصل نہ ہو۔ اس کے برعکس یہ فریضہ ڈی اے ای اوربی ٹیک حضرات بآسانی سرانجام دے سکتے ہیں اور دے رہے ہیں۔ انجینئر حضرات ان دونوں پر (بالخصوص پاکستان کی حد تک) صرف انگریزی زبان میں برتری کی بنیاد پراپنی ”برتری“ ثابت کئے ہوئے ہیں۔ ورنہ ”کارکردگی“ کی بنیاد یہ کبھی بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ پاکستان کے صنعتی اداروں کی ریڑھ کی ہڈی یہی ڈی اے ای اور بی ٹیک حضرات ہیں، جو اپنی قابلیت، ذہانت اورکرکردگی کی بنیاد پر (انجینئرز کی مخالفت و رقابت کے باوجود ) ہر بلند سظح پر پہنچے ہوئے ہیں۔ اگر ”سرکاری سطح پر“ بی ٹیک آنر اور انجینئرنگ کو ”مساوی ڈگری“ کا درجہ مل جائے اور ہر خالی اسامی پر یہ دونوں حضرات یکساں طور پرانتخاب کے لئے بلوائے جائیں تو ”انجینئرز کے ڈھول کا پول“ جلد ہی کھُل جائے گا اور انہیں نوکری ڈھونڈنے میں بڑی دقت کا ساامنا کرنا پڑے گا۔:D گو کہ اس سے خود میرے اپنے بچوں کو بھی مشکل ہوجائے گی ۔ لیکن اتنی تسلی ضرور ہے کہ ابھی ہنوز دلی دور است۔

(نوٹ: میں نہ ڈی اے ای ہوں، نہ بی ٹیک اور نہ انجینئر، لیکن انہی کے درمیان عشروں سے موجود ہوں اور ہر دو کے ساتھ عملی کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ صرف وضاحتاً عرض ہے:D )
 

سید ذیشان

محفلین
محمد امین آپ کی بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔ کیا آپ اپنی بات کی وضاحت کرنا چاہیں گے۔ بی ٹیک آنرکو انجینئرنگ کے لیول کی ڈگری قرار دینا، انجینرنگ کے لئے اچھی خبر نہیں ہے یا انجینئرز کے لئے :D
ویسے انصاف کی بات تو یہ ہے کہ بی ٹیک کو ”سینیئر انجینرنگ“ لیلول کی ڈگری قرار دینا چاہئے۔ میں یہ بات مزاحاً نہیں کہہ رہا بلکہ انجینئرنگ کے قومی و کثیر القومی اداروں میں عشروں کے عملی تجربہ کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ کوئی ”رننگ انجینئرنگ صنعتی ادارہ“ صرف ”انجینئرز“ کبھی نہیں چلا سکتے، جب تک انہیں ایسوسی ایٹس انجینئرز (ڈی اے ای) اور بی ٹیک حضرات کا عملی تعاون حاصل نہ ہو۔ اس کے برعکس یہ فریضہ ڈی اے ای اوربی ٹیک حضرات بآسانی سرانجام دے سکتے ہیں اور دے رہے ہیں۔ انجینئر حضرات ان دونوں پر (بالخصوص پاکستان کی حد تک) صرف انگریزی زبان میں برتری کی بنیاد پراپنی ”برتری“ ثابت کئے ہوئے ہیں۔ ورنہ ”کارکردگی“ کی بنیاد یہ کبھی بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ پاکستان کے صنعتی اداروں کی ریڑھ کی ہڈی یہی ڈی اے ای اور بی ٹیک حضرات ہیں، جو اپنی قابلیت، ذہانت اورکرکردگی کی بنیاد پر (انجینئرز کی مخالفت و رقابت کے باوجود ) ہر بلند سظح پر پہنچے ہوئے ہیں۔ اگر ”سرکاری سطح پر“ بی ٹیک آنر اور انجینئرنگ کو ”مساوی ڈگری“ کا درجہ مل جائے اور ہر خالی اسامی پر یہ دونوں حضرات یکساں طور پرانتخاب کے لئے بلوائے جائیں تو ”انجینئرز کے ڈھول کا پول“ جلد ہی کھُل جائے گا اور انہیں نوکری ڈھونڈنے میں بڑی دقت کا ساامنا کرنا پڑے گا۔:D گو کہ اس سے خود میرے اپنے بچوں کو بھی مشکل ہوجائے گی ۔ لیکن اتنی تسلی ضرور ہے کہ ابھی ہنوز دلی دور است۔

(نوٹ: میں نہ ڈی اے ای ہوں، نہ بی ٹیک اور نہ انجینئر، لیکن انہی کے درمیان عشروں سے موجود ہوں اور ہر دو کے ساتھ عملی کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ صرف وضاحتاً عرض ہے:D )

انجینئرز اور ٹیکنیشن کے کورس کریکولم، لیبارٹری ٹیکنکز اور سب سے بڑی بات ان کی تعلیم کے مقاصد سرے سے ہی مختلف ہیں۔ انجنئرنگ کی تعلیم کا مقصد چیزوں کو ڈیزائن کرنا ہوتا ہے۔ ڈپلومہ ہولڈرز کا مقصد ان کو امپلیمنٹ کرنا ہوتا ہے۔ اور پوری دنیا میں ہی ایسا ہو رہا ہے۔ اس کا انگریزی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان میں اگر انجینئرنگ کا معیار اچھا نہیں ہے تو اسی طرح سے بی ٹیک، میڈیکل وغیرہ کا معیار بھی اچھا نہیں ہے۔

فیکٹری صرف اور صرف انجینئرز پر نہیں چل سکتی۔ اسی طرح وہ صرف اور صرف ٹیکنیشنز پر نہیں چل سکتی۔ ہاں ایسی فیکٹری جن میں انجینئرز ٹیکنیشن والا کام کر رہے ہیں تو ظاہری بات ہے کہ اس میں اگر ٹیکنیشن رکھے جائیں تو یہ بہتر ہے۔ لیکن اس میں فیکٹری مالکان کا قصور ہے نہ کہ انجنئرنگ کی ٹریننگ کا۔

جیسا کہ ڈاکٹر کا کام فارماسیسٹ کو نہیں سونپا جا سکتا اسی طرح انجینئر کا کام ٹیکنشن کو نہیں سونپ سکتے۔

(نوٹ: میں خود انجینئر ہوں اور انجینئرنگ کی ریسرچ اور تدریس سے میرا واسطہ رہا ہے۔ اور اس میں عملی کام کا بھی کافی تجربہ ہے۔)
 

یوسف-2

محفلین
انجینئرز اور ٹیکنیشن کے کورس کریکولم، لیبارٹری ٹیکنکز اور سب سے بڑی بات ان کی تعلیم کے مقاصد سرے سے ہی مختلف ہیں۔ انجنئرنگ کی تعلیم کا مقصد چیزوں کو ڈیزائن کرنا ہوتا ہے۔ ڈپلومہ ہولڈرز کا مقصد ان کو امپلیمنٹ کرنا ہوتا ہے۔ اور پوری دنیا میں ہی ایسا ہو رہا ہے۔ اس کا انگریزی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان میں اگر انجینئرنگ کا معیار اچھا نہیں ہے تو اسی طرح سے بی ٹیک، میڈیکل وغیرہ کا معیار بھی اچھا نہیں ہے۔

فیکٹری صرف اور صرف انجینئرز پر نہیں چل سکتی۔ اسی طرح وہ صرف اور صرف ٹیکنیشنز پر نہیں چل سکتی۔ ہاں ایسی فیکٹری جن میں انجینئرز ٹیکنیشن والا کام کر رہے ہیں تو ظاہری بات ہے کہ اس میں اگر ٹیکنیشن رکھے جائیں تو یہ بہتر ہے۔ لیکن اس میں فیکٹری مالکان کا قصور ہے نہ کہ انجنئرنگ کی ٹریننگ کا۔

جیسا کہ ڈاکٹر کا کام فارماسیسٹ کو نہیں سونپا جا سکتا اسی طرح انجینئر کا کام ٹیکنشن کو نہیں سونپ سکتے۔

(نوٹ: میں خود انجینئر ہوں اور انجینئرنگ کی ریسرچ اور تدریس سے میرا واسطہ رہا ہے۔ اور اس میں عملی کام کا بھی کافی تجربہ ہے۔)
جی آپ کی بات اپنی جگہ سو فیصد درست ہے۔
ڈپلومہ ہولڈرز(ٹیکنیشینز) کا ذکر تو ضمناً آگیا تھا۔ ورنہ یہاں ذکر تھا بی ٹیک آنرز بمقابلہ انجئنئرز :D اب تک بی ٹیک آنرزکو پاکستان میں اس کا مقام نہیں مل پایا تھا۔ اوپر کے مبینہ خبر سے معلوم ہوا کہ اسے ”انجینئرنگ کے لیول کی ڈگری“ قرار دیدی گئی ہے۔ اگر ایسا ہے تو بہت اچھا ہے۔ پاکستان کے صنعتی اداروں میں انجینئروں کی بیشتر تعداد اپنا اصل کام یعنی ڈیزائننگ نہیں کر رہی (اس میں انجینئرز کا کوئی ”قصور“ نہین بلکہ یہ صنعتوں کی اپنی ضرورت ہے) بلکہ پراسس اور مینٹیننس کے شعبوں کو سپروائز کر رہی ہے۔ اور یہ کام انجیبئرز کے ساتھ ساتھ تجربہ کار نان انجینئرز بھی بخوبی کر رہے ہیں۔ میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ انجیئنرنگ ریسرچ ، ڈیزائننگ اور ماڈیفیکیشنز وغیرہ تو ظاہر ہے کہ انجیئنرز کا اپنا شعبہ ہے، اس شعبہ میں دوسرا کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ لیکن جہاں انڈسٹریز میں پراسس، مینٹیننس، ایگزیکیوشن وغیرہ کو ”سپر وائز“ کرنے والی بات ہے (جو پاکستان کے پچاس فیصد سے زائد انجیئنرز کر رہے ہیں، اور بُرا نہیں بلکہ اچھا کر رہے ہیں) تو یہ کام بی ٹیک آنرز والے ان سے بہتر کر سکتے ہیں، اگر انہیں مساوی مواقع فراہم کئے جائیں۔
ایک لطیفہ سنئے۔ ہمارے ادارے میں سو کے قریب انجینئرزکام کرتے ہیں۔ ہائی مینجمنٹ کو چھوڑ کر مڈل لیول کے بیشتر انجینئرز مختلف ڈپارٹمنٹس میں یہی روٹین کام کررہے ہیں، ۔ ہمارے صرف ایک ڈپارٹمنٹ میں ”اصل انجینئرنگ“ (ڈیزائننگ، ماڈیفیکیشنز، پراجیکٹس پلاننگ وغیرہ) کا کام ہوتا ہے جس میں بمشکل درجن بھرکے قریب انجینئرز کام کرتے ہیں۔ ایک میٹنگ میں انہی میں سے ایک نے پروڈکشن میں کام کرنے والے انجینرز سے کسی بات پر کہا کہ آپ لوگوں کا ”انجینئرنگ“ سے کیا واسطہ؟ انجیئنرنگ تو ”ہمارا کام“ ہے۔ لہٰذا آپ ہمارے معاملہ میں مداخلت نہ کریں۔ ایک ہی گریڈ میں اور یکساں تجربہ کے حامل ایک انجینرنگ گریجویٹ کا دوسرے گریجویٹ کو یہ جملہ کہنا کہ آپ کا ”انجینئرنگ“ سے کیا واسطہ؟ کہنا اور دوسرے کا اس پر کوئی اعتراض نہ کرنا اسی بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارے ہاں بیشتر انجینئرز ”غیرانجیئنرنگ“ والا کام کر رہے ہیں، جو ایک بی ٹیک آنرز والا ان سے بہتر کرسکتا ہے ۔
 

سید ذیشان

محفلین
جی آپ کی بات اپنی جگہ سو فیصد درست ہے۔
ڈپلومہ ہولڈرز(ٹیکنیشینز) کا ذکر تو ضمناً آگیا تھا۔ ورنہ یہاں ذکر تھا بی ٹیک آنرز بمقابلہ انجئنئرز :D اب تک بی ٹیک آنرزکو پاکستان میں اس کا مقام نہیں مل پایا تھا۔ اوپر کے مبینہ خبر سے معلوم ہوا کہ اسے ”انجینئرنگ کے لیول کی ڈگری“ قرار دیدی گئی ہے۔ اگر ایسا ہے تو بہت اچھا ہے۔ پاکستان کے صنعتی اداروں میں انجینئروں کی بیشتر تعداد اپنا اصل کام یعنی ڈیزائننگ نہیں کر رہی (اس میں انجینئرز کا کوئی ”قصور“ نہین بلکہ یہ صنعتوں کی اپنی ضرورت ہے) بلکہ پراسس اور مینٹیننس کے شعبوں کو سپروائز کر رہی ہے۔ اور یہ کام انجیبئرز کے ساتھ ساتھ تجربہ کار نان انجینئرز بھی بخوبی کر رہے ہیں۔ میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ انجیئنرنگ ریسرچ ، ڈیزائننگ اور ماڈیفیکیشنز وغیرہ تو ظاہر ہے کہ انجیئنرز کا اپنا شعبہ ہے، اس شعبہ میں دوسرا کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ لیکن جہاں انڈسٹریز میں پراسس، مینٹیننس، ایگزیکیوشن وغیرہ کو ”سپر وائز“ کرنے والی بات ہے (جو پاکستان کے پچاس فیصد سے زائد انجیئنرز کر رہے ہیں، اور بُرا نہیں بلکہ اچھا کر رہے ہیں) تو یہ کام بی ٹیک آنرز والے ان سے بہتر کر سکتے ہیں، اگر انہیں مساوی مواقع فراہم کئے جائیں۔
ایک لطیفہ سنئے۔ ہمارے ادارے میں سو کے قریب انجینئرزکام کرتے ہیں۔ ہائی مینجمنٹ کو چھوڑ کر مڈل لیول کے بیشتر انجینئرز مختلف ڈپارٹمنٹس میں یہی روٹین کام کررہے ہیں، ۔ ہمارے صرف ایک ڈپارٹمنٹ میں ”اصل انجینئرنگ“ (ڈیزائننگ، ماڈیفیکیشنز، پراجیکٹس پلاننگ وغیرہ) کا کام ہوتا ہے جس میں بمشکل درجن بھرکے قریب انجینئرز کام کرتے ہیں۔ ایک میٹنگ میں انہی میں سے ایک نے پروڈکشن میں کام کرنے والے انجینرز سے کسی بات پر کہا کہ آپ لوگوں کا ”انجینئرنگ“ سے کیا واسطہ؟ انجیئنرنگ تو ”ہمارا کام“ ہے۔ لہٰذا آپ ہمارے معاملہ میں مداخلت نہ کریں۔ ایک ہی گریڈ میں اور یکساں تجربہ کے حامل ایک انجینرنگ گریجویٹ کا دوسرے گریجویٹ کو یہ جملہ کہنا کہ آپ کا ”انجینئرنگ“ سے کیا واسطہ؟ کہنا اور دوسرے کا اس پر کوئی اعتراض نہ کرنا اسی بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارے ہاں بیشتر انجینئرز ”غیرانجیئنرنگ“ والا کام کر رہے ہیں، جو ایک بی ٹیک آنرز والا ان سے بہتر کرسکتا ہے ۔
میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔ میرے والد نے بھی مجھے مشورہ دیا تھا کہ میں میڈیکل کی طرف جاوں کیونکہ پاکستان میں انجنیئرنگ نہیں ہوتی، اور یہ انہوں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر کہا۔ لیکن میں ٹہرا ہٹ دھرم۔ :)
بعض اوقات فیکٹریوں میں انجنئیر شو مارنے کے لئے بھی رکھتے ہیں کہ سیٹھ کہہ سکیں کہ میرے انڈر اتنے سارے انجنئر کام کر رہے ہیں اور وہ کام ایسا ہوتا ہے جو کوئی ٹکنشن بخوبی انجام دے سکتا ہے۔ تو پاکستان میں زیادہ تر انجنئیر ڈیزائن کا کام نہیں کر رہے جو بہت افسوسناک ہے۔ کیونکہ آجکل ملکوں کی ترقی کا دارومدار جدت ہے جس پر ہماری توجہ نہیں ہے۔
 
Top