اسلامی فلمیں

کعنان

محفلین
انبیاء کے کرداروں پر مشتمل فلم کا حکم


عقیدے کے مسائل


سوال

کیا فرماتے ہیں علمأ کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

میں نے بازار سے چند سی ڈیز خریدیں جو بظاہر حضرات انبیأ کرام علیہم السلام کی معلومات پر بنی تھیں، لیکن جب میں نے انہیں دیکھا تو ان میں باقاعدہ اردو زبان میں ترجمے کے ساتھ مختلف افراد کو انبیأعلیہم السلام کی شکل میں دکھاکر ان کی زندگی کے مختلف واقعات قلم بند کئے گئے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام پر بنائی گئی فلم میں انہیں بازار میں فروخت ہوتے ہوئے‘ زلیخا کی جانب سے آپ سے جنسی تعلق قائم کرنے کی کوشش کرنے کے علاوہ حضرت یعقوب علیہ السلام سمیت ان کے تمام دس بیٹوں کو بھی دکھا یا گیا‘ فلم کے بعض مناظر میں حضرت یعقوب علیہ السلام کو (معاذ اللہ) اپنی حاملہ بیوی سے بوس وکنار کرتے‘ حضرت یعقوب علیہ السلام کی صاحبزادی کو شراب پیتے ہوئے بتایا گیا‘ بعد ازاں ان کے ساتھ زیادتی کا واقعہ بھی بنایاگیا۔

حضرت سارہ کو نیم برہنہ حالت‘ حضرت یعقوب علیہ السلام کے اپنی خادمہ ہاجرہ کے ساتھ تعلقات اور اس کے نتیجے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش بھی اسی فلم کا حصہ ہیں۔

پردہ کے پیچھے سے آنے والی انسانی آواز کو اللہ کی آواز قرار دے کر حضرت یعقوب علیہ السلام کو ختنہ کے احکامات دئیے گئے ہیں‘ جبکہ ایک بڑی سی چادر اوڑھے شخص کو اللہ کہہ کر (معاذ اللہ) اس کے ہمراہ دو انسانوں کو فرشتوں کے روپ میں بھی دکھایا گیا ہے جو حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں۔

فلم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ حضرت اسحاق علیہ السلام کو قربان گاہ لے جانے اور مینڈھے کے آنے کے مناظر بھی موجود ہیں ”کلام مقدس“ کے نام سے بنائی گئی فلم میں زمین کی تخلیق کے مراحل‘ کلین شیو شخص کو مکمل برہنہ حالت میں حضرت آدم علیہ السلام اور مکمل برہنہ عورت کو حضرت حوا کے روپ میں پیش کرکے جنت سے پھل کھانے کے بعد دنیا میں بھیجے جانے کی تفصیلات موجود ہیں۔ اس تمام تفصیل کی روشنی میں سوال ہے کہ:

الف: اس قسم کی سی ڈیز کی کھلے عام فروخت‘ اس کے بنانے والوں کے بارے میں شرعی حکم اور سزا کیا ہے؟ نیز حکومت اس کی روک تھام کی کس حد تک ذمہ دار ہے‘ اور اگر حکومت ایسی سی ڈیز کی روک تھام نہیں کرتی تو ایک عام مسلمان کس حد میں رہتے ہوئے ان سی ڈیز کے پھیلاؤ کو روک سکتا ہے؟

ب: ان سی ڈیز کو کیبل نیٹ ورک پر چلانے والے کے لئے شرعی حکم کیا ہے؟ اور کیا ایسے کیبل نیٹ ورک کو مسلمان بزور قوت اس عمل سے باز رکھ سکتے ہیں؟

سائل : عارف محمود

گلشن ظہور ،جیکب لائن کراچی




جواب

دار الافتأ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں چند سی ڈیز‘ جوانبیأ اکرام علیہم السلام کے بارے میں بنائی گئی ہیں‘ لائی گئیں اور اس بارے میں ”دار الافتأ“ سے شرعی رائے پوچھی گئی اوران میں موجود مواد کی تفصیلات مذکورہ سوال میں ذکر کردی گئی ہیں‘ ان تفصیلات کے سامنے آنے کے بعد جواب دینے سے پہلے یہ بات پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ حضرات انبیأ کرام علیہم السلام‘ جیسے مسلمانوں کے ہاں قابل احترام ہستیاں ہیں‘ اسی طرح عیسائیوں کے ہاں بھی قابل احترام ہستیاں ہیں‘ اور عیسائی ان ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول تسلیم کرتے ہیں‘ بایں ہمہ عیسائیوں کو ایسی حرکتیں کرنا قطعاً زیب نہیں دیتا‘ ان انبیأ کرام علیہم السلام کو مقدس اور قابل احترام جاننے اور ماننے کے دعوے کے بعد عیسائیوں کی‘ا س طرح کی نازیبااور سوقیانہ حرکتیں کرنا‘ انتہائی شرمناک‘افسوس ناک اور ناقابل فہم ہے۔

عیسائیوں کی کسی تنظیم کی طرف سے حضرات انبیأ کرام علیہم السلام کے بارے میں اس طرح کی فحش اور گھٹیا فلمیں بناکر انبیأ کرام علیہم السلام کے روپ میں عام انسانوں کو نبی کے طور پر پیش کرنا‘ انبیأ کرام کی توہین وتنقیص ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ خود عیسائی نادانستہ طور پر یہودی لابی کی سازشوں کا شکار ہورہے ہوں، جیساکہ کلام مقدس کے نام کی سی ڈی کے ڈیزائن میں یہودیوں کا مشہور ومعروف چھ کونوں والا ستارہ نمایاں طور پر دکھا یا گیا ہے‘ دختران پولوس نامی عیسائی تنظیم ان سی ڈیز کی نشر واشاعت کا کام کر رہی ہے‘ حالانکہ پولوس در پردہ کٹر یہودی تھا جو دین عیسوی کو بگاڑنے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں شامل ہوا تھا اور اسی کی سازشوں سے دین عیسوی کو بہت زیادہ نقصان ہوا (اور اپنی اصلی صورت تھوڑا عرصہ گذرنے کے بعد کھو بیٹھا) غالباً موجودہ زمانے میں اسی پولوس کے نام پر یہ دختران پولوس نامی تنظیم اسی کے مقصدکو پورا کرنے کے لئے کام کررہی ہے‘ تاکہ انبیأ کرام علیہم السلام کا جو احترام عیسائیوں کے دلوں میں ہے اس کو ان کے دلوں سے اکھاڑ پھینکا جائے‘ بہرحال اس کے پیچھے محرکات جو بھی ہوں‘ انبیأ کرام علیہم السلام‘ مسلمانوں کے ہاں معصوم اور گناہوں سے پاک ہستیاں ہیں‘ جیسے نبی آخر الزمان ا کی توہین وتنقیص کفر اور موجب سزائے موت ہے‘ اسی طرح دیگر تمام انبیأ کرام علیہم السلام یا ان میں سے کسی ایک نبی علیہ السلام کے بارے میں فلمیں بنوانا اور عام گناہگار انسانوں کو انبیأ کرام جیسی معصوم اور مقدس ہستیوں کے طور پر پیش کرنا اور اللہ تعالیٰ کے معصوم اور مقدس انبیأ کرام علیہم السلام کو نازیبا حرکتیں کرتے ہوئے دکھانا‘ انبیأ کرام کی کھلی توہین وتنقیص ہے۔

لہذا حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ اس کفر وارتداد پھیلانے والی سی ڈیز کو ضبط کرکے ضائع کرے اور آئندہ کے لئے ایسا قانون پاس کرے ‘ جس سے ایسے کفریہ وتوہین آمیز کاموں کا سدِ باب ہوسکے، جیساکہ معلوم ہوا ہے کہ یہ سی ڈیز باہر سے در آمد کی گئیں ہیں، تو حکومت وقت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان ”سی ڈیز“ کے درآمد کرنے والوں اورتمام متعلقہ افراد کو عبرت ناک سزا دے اور ان سے سخت باز پرس کرکے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچائے۔

اس کے ساتھ علمأ کرام اور عوام کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ ان سی ڈیز کے خلاف آواز بلند کریں اور ان کی بندش وضبطی کی ہر ممکن کوشش کریں‘ اور تاجر حضرات ان کی خرید وفروخت سے کلیةً باز آئیں کہ ان کی خرید وفروخت ناجائز وحرام ہے۔

ان سی ڈیز میں توہین انبیأ کرام سے ہٹ کر بعض احکامات کو غلط انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جیساکہ ”عمل ختنہ“ کو حضرت یعقوب علیہ السلام سے منسوب کیاگیاہے‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم ان سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نازل کیا تھا‘ اسی طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ حضرت اسحاق علیہ السلام کو ذبیح (قربان ہونے والا) دکھایا گیاہے‘ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ ذبیح حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں نہ کہ حضرت اسحاق علیہ السلام۔

الجواب صحیحح


کتبہ


محمد عبد المجید دین پوری


محمد داؤد


عبد الستار حامد


دار الافتاء بنوری ٹاوٴن کراچی


بینات شعبان المعظم ۱۴۲۶ھ بمطابق اکتوبر ۲۰۰۵ء
 

طالوت

محفلین
انبیاء کے کرداروں پر مشتمل فلم کا حکم


عقیدے کے مسائل


سوال

کیا فرماتے ہیں علمأ کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

میں نے بازار سے چند سی ڈیز خریدیں جو بظاہر حضرات انبیأ کرام علیہم السلام کی معلومات پر بنی تھیں، لیکن جب میں نے انہیں دیکھا تو ان میں باقاعدہ اردو زبان میں ترجمے کے ساتھ مختلف افراد کو انبیأعلیہم السلام کی شکل میں دکھاکر ان کی زندگی کے مختلف واقعات قلم بند کئے گئے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام پر بنائی گئی فلم میں انہیں بازار میں فروخت ہوتے ہوئے‘ زلیخا کی جانب سے آپ سے جنسی تعلق قائم کرنے کی کوشش کرنے کے علاوہ حضرت یعقوب علیہ السلام سمیت ان کے تمام دس بیٹوں کو بھی دکھا یا گیا‘ فلم کے بعض مناظر میں حضرت یعقوب علیہ السلام کو (معاذ اللہ) اپنی حاملہ بیوی سے بوس وکنار کرتے‘ حضرت یعقوب علیہ السلام کی صاحبزادی کو شراب پیتے ہوئے بتایا گیا‘ بعد ازاں ان کے ساتھ زیادتی کا واقعہ بھی بنایاگیا۔

حضرت سارہ کو نیم برہنہ حالت‘ حضرت یعقوب علیہ السلام کے اپنی خادمہ ہاجرہ کے ساتھ تعلقات اور اس کے نتیجے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش بھی اسی فلم کا حصہ ہیں۔
پردہ کے پیچھے سے آنے والی انسانی آواز کو اللہ کی آواز قرار دے کر حضرت یعقوب علیہ السلام کو ختنہ کے احکامات دئیے گئے ہیں‘ جبکہ ایک بڑی سی چادر اوڑھے شخص کو اللہ کہہ کر (معاذ اللہ) اس کے ہمراہ دو انسانوں کو فرشتوں کے روپ میں بھی دکھایا گیا ہے جو حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں۔

فلم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ حضرت اسحاق علیہ السلام کو قربان گاہ لے جانے اور مینڈھے کے آنے کے مناظر بھی موجود ہیں ”کلام مقدس“ کے نام سے بنائی گئی فلم میں زمین کی تخلیق کے مراحل‘ کلین شیو شخص کو مکمل برہنہ حالت میں حضرت آدم علیہ السلام اور مکمل برہنہ عورت کو حضرت حوا کے روپ میں پیش کرکے جنت سے پھل کھانے کے بعد دنیا میں بھیجے جانے کی تفصیلات موجود ہیں۔ اس تمام تفصیل کی روشنی میں سوال ہے کہ:
جواب

یہ جس قدر حوالے دیئے گئے اس سے تو کوئی جاہل مرتبت بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ عیسائی عقیدے کے مطابق فلمائی گئی ہیں ۔ یا آپ کے خیال میں انبیاء برہنہ بھی لوگوں کے سامنے آتے جاتے تھے اور شراب نوشی بھی کرتے تھے ؟ (نعوذ باللہ )مگر ان کو فلمبندی نہیں کرنا چاہیے تھی :rolleyes: ویسے سیدنا موسیٰ علیہ الصلوۃ وسلام اس پتھر کے پیچھے برہنہ ہی بھاگے تھے جو آپ کے کپڑے لے کر بھاگا تھا حتٰی کہ لوگوں نے آپ کو اسی حالت میں دیکھ لیا ۔ اب جن کے ایسے عقیدے ہیں ان کو ٹھنڈے پیٹوں ایسی فلمیں ہضم کرنا چاہیں ان کے اعتراضات بے وجہ ہیں ۔
وسلام
 

موجو

لائبریرین
السلام علیکم جناب
میں یہیں ہوں آپ کیوں گھبرا رہے ہیں
آپ کی گفتگو سے لگتا ھے آپ بھی پیدل ہیں
فتوے مفتیان صاحبان صادر کرتے ہیں مجھ جیسے نہیں
وہ فتوے جو میں نے پیسٹ کئے ہیں وہ مفتیان صاحبان کے ہیں
عمل کرنا نہ کرنا یہ سب کی اپنی اپنی فطرت کی بات ھے
آپ کو اگر یہ باتیں اچھی نہیں لگیں آپ ان پر عمل نہ کریں اس پر کسی کی کوئی زبردستی نہیں اور نہ ہی میں نے کسی کو یہ کہا ھے کہ وہ میری پیسٹ کی ہوئی باتوں‌ کو سچ مانے۔ مجھے جو اچھا لگا وہ میں نے لگا دیا آپ کو جو اچھا لگتا ھے آپ اس پر عمل کرو ہاں اگر میں نے کچھ غلط لکھا ھے تو آپ اس پر اعتراض کر سکتے ہیں آپ کو اس کو جواب دینے کی کوشش ضرور کروں گا لیکن سمجھانے کی کوشش نہیں کروں گا کیونکہ سمجھنا ہر انسان کی اپنی فطرت پر منحصر ہوتا ھے۔
والسلام
السلام علیکم
محترم بھائی میں‌نے یہ کب لکھا کہ فتوے آپ دے رہے ہیں۔
فطرت کی وضاحت کریں؟
جو کسی دوسرے شخص کی بات کو تسلیم نہ کرے اس کی فطرت آپ کے نزدیک کیسی ہے؟
اچھی بات ہے کہ آپ کو جو اچھا لگا وہ آپ نے بیان کردیا
میرے بھائی ہم اس بحث کو تعمیری بنانا چاہتے ہیں کیا آپ اس معاملے میں معاون ہوسکتے ہیں؟
آپ کے مطالعے، تجربے اور سوچ سے ہم مستفید ہوسکتے ہیں؟
میں‌ آپ سے درخواست کروں گاکہ آپ نے مطالعے اور تحقیق کے بعد جو رائے قائم کی ہے وہ بیان کریں۔ کسی عالم یا مکتبہ فکر کا فتوی ایک خاص حالت، خاص فرد یا گروہ اور مخصو ص پہلو کے تناظر میں‌ہوتا ہے۔ اگرچہ علماء فتوی دینے میں‌غلطیان کرتے ہیں لیکن دوسری طرف فتوی کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔
اور میری تو سب سے درخواست ہے کہ آئیے ہم میڈیا کے ایسے استعمال کی بات کریں جو تعمیری ہو اور انسان کو انسانیت کا درس دے۔
میرا گمان ہے کہ بہت سے مسلمان اس بات کو شعوری طور پر سمجھتے ہیں کہ میڈیا کو مثبت طریقے سے استعمال کیا جانا چاہیے؟
بہت سے لوگ اس میدان میں‌کام کر رہے ہیں ہم ان کے اور ان کے کام کے بارے میں‌معلومات کا تبادلہ کریں؟
ہم ان کے لیے کہاں‌کار آمد ہوسکتے ہیں ۔
اور کیسے ہمیں‌اپنی ذات، خاندان اور معاشرے میں‌کیسے میڈیا کے گند سے بچنا اور اس کے جواب میں‌متبادل میڈیا پیش کرنا ہے۔
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

اور میری تو سب سے درخواست ہے کہ آئیے ہم میڈیا کے ایسے استعمال کی بات کریں جو تعمیری ہو اور انسان کو انسانیت کا درس دے۔
میرا گمان ہے کہ بہت سے مسلمان اس بات کو شعوری طور پر سمجھتے ہیں کہ میڈیا کو مثبت طریقے سے استعمال کیا جانا چاہیے؟
بہت سے لوگ اس میدان میں‌کام کر رہے ہیں ہم ان کے اور ان کے کام کے بارے میں‌معلومات کا تبادلہ کریں؟
ہم ان کے لیے کہاں‌کار آمد ہوسکتے ہیں ۔
اور کیسے ہمیں‌اپنی ذات، خاندان اور معاشرے میں‌کیسے میڈیا کے گند سے بچنا اور اس کے جواب میں‌متبادل میڈیا پیش کرنا ہے۔


السلام علیکم بھائی صاحب
آپ نے باتیں بہت اچھی لکھی ہیں اس کے ایک بات بتانا بہت ضروری سمجھتا ہوں آپ کو آپ اگر کسی کو کوئی سوال کرتے ہیں اور اس میں آپ کی سوچ منفی ہوتی ھے تو آپ اس کے مثبت جواب کو بھی منفی سمجھیں گے کیونکہ آپ کی سوچ منفی ھے
اور اگر آپ کسی کو کوئی سوال کرتے ہیں اور آپکی سوچ مثبت ہوتی ھے تو آپ سامنے والے کے منفی سوال کو بھی مثبت سمجھو گے اور آپ اپنی مثبت سوچ سے اس کو جواب دینے کی کوشش کرو گے

میں ایک فارم میں ناظم ہوں اور میرے پاس اتنا وقت ھے کہ میں دوسرے فارمز کو بھی وقت دے سکوں لیکن میں جہاں بھی جاتا ہوں گفتگو قرآن اور سنت کے مطابق کرتا ہوں
کچھ فارمز میں کچھ ممبران جو اپنی عقلی دلیلوں سے کام کرتے ہیں تو ان کو عقلی دلیلوں سے بھی مستفید کیا جاتا ھے اور جب ان کی عقلی دلیلیں بھی بے بس ہو جاتی ہیں تو وہ پرانے ممبر ہونے کی حیثیت ھے ایڈمین کو یہ تعاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ذاتیات پر حملے کئے جا رہے ہیں

اگر کسی نے ایک دھاگہ بنایا ھے اور ضروری نہیں کہ اس کو سارے شکریہ ادا کریں کسی کو اس کی کوئی بات پر اعتراض بھی ہو سکتا ھے
اب اس کے لیے یہ ضروری ہوتا ھے کہ اس ممبر کی دوسری پوسٹ پر بھی نظر ثانی کی جاتی ھے کہ آیا کہ ممبر اس قابل بھی ھے کہ اس کے بارے میں کوئی علم رکھتا ہو یا اس ممبر کو صرف دھاگہ بنانے کا شوق ھے ، اب اگر ثابت ہو جائے کہ یہ صرف دھاگے بنانے والا ممبر ھے تو اس کو پھر اس میں جو کمی ہوتی ھے اس کے بارے میں آگاہ نہیں کیا جاتا ۔
اسی طرح اگر کسی ممبر کی دوسری پوسٹ میں کچھ نظر آتا ھے کہ یہ جواب دینے کی صلاحیت بھی رکھتا ھے تو اس کو اس کے دھاگہ میں جو کمی نظر آتی ھے اس کے بارے میں سوال کیا جاتا ھے، اب وہ ممبر واقعی ہی علم رکھتا ھے اور اس نے وہ دھاگہ کہیں سے اپنے فارم میں لگایا ھے نیکی کی غرض سے تو وہ اس کو اچھے طریقے سے اپنی عقلی دلیل سے یا کسی بھی طرح سمجھانے کی کوشش کرے گا اگر نہیں تو وہ یہ کہے گا کہ میرے پاس یہی انفارمیشن تھی جو میں نے لگا دی میں آپ کا جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتا اگر آپ کے پاس اس کے بارے میں کوئی مزید اچھی انفارمیشن ھے تو آپ اسی دھاگے کے آگے لگا دیں یہ ایک عقلمند ممبر کی پہچان ھے
اب ایک اور قسم بھی ھے ممبران کی جو کچھ بھی نہیں جانتے شعرو شائری ،فلموں، لطیفوں سے فارم میں آغاز کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ اسلامی فارم میں آ کے ڈرٹی ٹرک استعمال کرتے ہیں ان کو یہ تک نہیں پتہ ہوتا کہ بات کیا ہو رہی ھے اور اس کا جواب کیا دینا ھے اور اس کا جواب جو دینا ھے وہ صرف ایک ممبر کے لیے نہیں ھے اگر وہ دھاگہ فارمز دے حذف بھی ہو گیا ھے تو وہ گوگل کے سوفٹ وئر میں ھے کوئی بھی جب گوگل میں کچھ سرچ کرے گا تو الفاظ میچ ہو گئے تو وہ دھاگہ سامنے آ جائے گا اور جو بھی پڑھے گا وہ اس کی عقل پر اپنے دل میں ضرور کچھ کہے گا

میرا فارم پر کام کرنا اور تھریڈ بنانا اس کے لیے میں جہاں سے بھی انفارمیشن لیتا ہوں یا جس ممبر کا اچھا دھاگہ نقل کرتا ہوں اس ممبر کی پوری انکوئری کرتا ہوں، وہ فارم کے جا مالک ھے اس کی انکوائری کرتا ہوں کہ وہ کون ھے کہاں ھے کس قسم کا ھے ، جو احادیث مبارکہ حوالے کے لیے لیتا ہوں ان وہب پر کون کام کر رہا ھے وہ کونسے ملک سے آپریٹ ہو رہی ھے آیا اس کے پیچھے کام کرنے والے باطل مذہب ، باطل فرقہ والے تو نہیں ہیں یہاں تک کہ ان کے کریمنل ریکارڈ بھی دیکھ لیتا ہوں یہ جاننا میرے لیے کوئی مشکل کام نہیں کسی بھی جگہ پر ، تو پھر جس کے مثبت رزلٹ ہوتے ہیں تو اس کی کاپی کرتا ہوں ، اس سائٹ سے حوالے لیتا ہوں احدیث مبارکہ کے اور دوسرے ۔




فطرت کی وضاحت کریں؟
جو کسی دوسرے شخص کی بات کو تسلیم نہ کرے اس کی فطرت آپ کے نزدیک کیسی ہے؟
اچھی بات ہے کہ آپ کو جو اچھا لگا وہ آپ نے بیان کردیا
میرے بھائی ہم اس بحث کو تعمیری بنانا چاہتے ہیں کیا آپ اس معاملے میں معاون ہوسکتے ہیں؟
آپ کے مطالعے، تجربے اور سوچ سے ہم مستفید ہوسکتے ہیں؟


یہ ایک لمبی گفتگو ھے لیکن اس وقت جو مسئلہ درپیش ھے اس کے مطابق کچھ لوگ ذاتی طور پر تسلیم کرتے ہیں اور فطری طور پر وہ بضد ہوتے ہیں ان کا کوئی علاج نہیں

مثلاً یہاں ایک ممبر نے اپنے تعارف میں اقرار کیا ہوا ھے کہ وہ پہلے 2 فارمز سے بین ہو چکا ہے کیونکہ اس نے ان کو ان کا اصلی چہرہ دکھایا تھا تو انہوں نے اسے بین کر دیا۔ اب یہ اس ممبر کی فطرت ھے۔
حالانکہ شیشہ میں ہر انسان اپنا چہرہ دیکھتا ھے دوسرے کا نہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ دوسرے کو دکھانا تو بھئی پہلے اپنا چہرہ تو دیکھو غور سے دوسرں کے پاس بھی اپنے شیشے ہیں وہ خود دیکھیں گے۔

اس کی ایک اور مثال
ایک فارم ھے فقہ اھل حدیث کا اور وہاں پر میرے نظر میں 5 کے قریب قابل یقین ممبر ہیں جو اپنے فقہ اھل حدیث کا علم جانتے ہیں اور بڑے اچھے طریقے سے اپنے وہاں پر مسائل کا حل اپنے ممبران کو بتاتے ہیں اب میرا فقہ ان سے مخالف ھے لیکن میں‌ ان کو ان کا چہرہ نہیں دکھاتا اور وہ مجھے میرا ، دونوں اپنے اپنے چہرے دیکھتے ہیں ۔ وہ ان کا فارم ھے اور وہ اسے اپنے طریقے سے اچھی طرح چلا رہے ہیں وہاں میری ممبر شپ ہونا یہ میری خوش قسمتی ہے جو ان سب میں مین بھی ہوں ۔ یہ ان کی فطرت بھی اچھی ھے
مجھے کوئی بھی ممبر کسی بھی فارم میں آنے کو کہے وہ مجھے وہاں پائے گا ابھی تک کہیں کسی سے ایسی کوئی غلط واقعہ پیش نہیں آیا جو کسی کو مجھے بین کرنا پڑے۔ یہ میری فطرت ھے ۔ دینا کا اصول بھی ھے کہ جب کسی کے گھر جاؤ تو ان کے گھر کے اصول کے مطابق چلو اور اگر ان کے اصول کے مطابق چل نہیں سکتے تو ان کو اتنا بھی تنگ نہ کرو کہ وہ آپکا سامان اٹھا کے باہر پھینک دیں

قلم کار کا کام ھے لکھنا اور کسی حد تک سوالوں کے جواب دینا اور کچھ سوال پڑھ کے قلم کار اندازہ لگا لیتا ھے کہ یہ بندے کا سوال کس نوعیت ھے ھے تو ضروری نہیں ہوتا ایسے بندے کو جواب دیا جائے۔ اب اس کو کوئی مانے یا نہ مانے وہ اس کی اپنی فطرت ھے اس کے لیے کوئی زبر دستی نہیں ھے باقی آپ کو اپر پڑھ کے اندازہ کر سکتے ہیں


میں‌ آپ سے درخواست کروں گاکہ آپ نے مطالعے اور تحقیق کے بعد جو رائے قائم کی ہے وہ بیان کریں۔ کسی عالم یا مکتبہ فکر کا فتوی ایک خاص حالت، خاص فرد یا گروہ اور مخصو ص پہلو کے تناظر میں‌ہوتا ہے۔ اگرچہ علماء فتوی دینے میں‌غلطیان کرتے ہیں لیکن دوسری طرف فتوی کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔

اس سائٹ میں کسی نے سوال کیا تھا تو وہ سعودیہ والا تھا اور سعودیہ میں رہنے والے فتوؤں پر بہت یقین کرتے ہیں تو اس لیے اس ممبر کو فتوؤں کی زبان سے جواب دیا تھا اور جب اس نے فتوؤں پر پورا انکار کیا تو وہ تھوڑا میرے سمجھ کے قریب ہو گیا اور جب آج اس کا جواب پڑھا تو اس میں اس کو پورا جاننے کا موقع ملا۔

اب آپ کو آپکے جواب سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں
فتوی ہر فقہ کا مفتی عالم فاضل جاری کرتا ھے بوقت ضرورت مثلاً کسی کو کوئی مسئلہ در پیش ھے وہ اپنی اس حاجت کے لیے کسی مفتی سے رابطہ کرتا ھے تو عالم فاضل مفتی اس کے مسئلہ کا حل قرآن اور حدیث میں ڈھوندے گا اور وہ اس کام کو منع ہونے یا ہونے کی اجازت عنایت فرمائے گا۔
اب کچھ ایسے مسائل بھی ہیں جو مفتی حضرات قرآن اور حدیث سے ڈھونڈنے سے قاصر رہتے ہیں حالانکہ ایسا کوئی بھی مسئلہ نہیں جو قرآن اور حدیث سے ثابت کرنے میں کوئی مشکل ہو لیکن ان کی عقل اور علم اس سے قاصر ھے تو وہ واقعات اور عقلی دلیل سے اس کی منع ہونے یا ہونے کی اجازت عنایت فرماتے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر میں اس مسئلہ کے حل میں غلط ہوا تو قیامت کے دن میں‌ سزا وار ہونگا۔

دنیاوہ مسائل کے حل کے لیے یہ کہنا کہ فلاں نے فتوی غلط دیا ھے تو یہ بات بہت غلط ھے اس کی وجہ یہ ھے کہ
نمبر 1 مفتی صاحب سے کسی نے فتوی لیا کسی کام کے لیے اب وہ مفتی صاحب نے سب جگہ سے دیکھا ان کو کوئی حل نہیں ملا اور انہوں نے اس کو وہ کام کرنے کی اجازت فرمائی پوری زمہ داری سے اب ان مفتی صاحب نے 5 سال پہلے مفتی کی ڈگری حاصل کی تھی اور وہ 5 سال سے کسی شعبہ کے ساتھ کام کر رہے ہیں تو ان کا تجربہ 5 سال کا ہوا

اب وہ بندہ مفتی نمبر2 کے پاس بھی جاتا ھے اور ان مفتی صاحب کا تجربہ اس فیلڈ میں 20 سال کا ھے وہ اس کو اس کے مسئلہ کا حل کے لیے قرآن اور حدیث سے ثابت کر کے وہ کام نہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں تو خاموشی سےمفتی نمبر 2 والے کی بات مان لینی چاہیے اور نمبر 1 مفتی کی بات کو ڈھنڈورا نہیں پیٹنا چاہیے نہیں تو سائل گناہ کا مرتب ہو گا
مفتی نمبر 1 راستے کا مسافر نہیں ھے سرٹیفایڈ مفتی ھے اور اس نے جب فتوی کی قیامت کے دن کی گناہ اپنے سر لینے کا اقرار بھی کیا ھے
ہر راستے کا مسافر اگر آپ کو یہ کہتا ھے تو اس کی بات کا یقین نہیں کیا جا سکتا

ایک اور قسم ھے فتوی کی وہ میں بیان نہیں کرتا ابھی لیکن کبھی اس طرح کا کوئی دھاگہ میری نظر میں آیا تو وہاں ضرور بیان کروں گا۔

اب آپ اس دھاگہ کے پہلو کو عقلی دلیل سے جاننا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہر انسان اپنی عقل کا مالک ھے وہ جو چاہے کرے وہ اس کی اپنی عقل ھے جو اس کو اس کو کسی بھی طرف لے جائے اس پر کوئی پابندی نہیں۔

یہ ساری باتیں آپ کے سوالوں میں اس لیے لکھی ہیں کہ میں نے آپ کا اندر کچھ دیکھا ھے اور امید کرتا ہوں یہ آپ ان کو سمجھ بھی سکیں گے
ہو سکتا ھے کچھ اور بھی اس کو پڑھ کے سمجھ سکیں اور کچھ نہ

والسلام
 

باذوق

محفلین
السلام علیکم!
کیا کسی محفل نشیں کے علم میں‌ہے کہ مسلم مفکرین نے کوئی جدید میڈیا کے حوالےسے کوئی معیار طے کیا ہو؟
و علیکم السلام
میرے علم میں ہے کہ کسی حد تک ایک متفقہ معیار طے ہوا ہے تصویر اور ویڈیو گرافی کے حوالے سے۔
یہ معاملہ پاکستان کی جس علمی و مذہبی کانفرنس میں زیر بحث آیا تھا اور جس پر تفصیلی گفتگو ہوئی تھی اس میں مختلف اہم مکاتبِ فکر کی معتبر اور معروف شخصیات شامل تھیں۔
میرے پاس وہ مکمل رپورٹ موجود ہے ، ان شاءاللہ کچھ فرصت ملنے پر پیش کروں‌ گا۔
 

موجو

لائبریرین
السلام علیکم
باذوق بھائی یہ بڑی ہی اچھی خبر سنائی آپ نے اب اس رپورٹ کو پہلی فرصت میں‌شئیر کیجیے گا
 

باذوق

محفلین
السلام علیکم
باذوق بھائی یہ بڑی ہی اچھی خبر سنائی آپ نے اب اس رپورٹ کو پہلی فرصت میں‌شئیر کیجیے گا
لنک حاضر ہے ۔۔۔۔ لیکن پہلے چند اقتباسات ۔۔۔

میڈیا کی اس تیزرفتاری اور ترقی سے بہت سے نئے مسائل نے جنم لیا ہے جن میں ایک اہم مسئلہ ہردَم بڑھتے ٹی وی چینلوں کا بھی ہے۔ پاکستان میں کیبل ٹی وی کے بعد اور مشرف حکومت کی نرم میڈیا پالیسیوں کے سبب پاکستانی قوم اس وقت ٹی وی چینلوں کے ایک طوفانِ بلاخیز سے دوچار ہے۔
ٹی وی چینلوں کی مقبولیت اور عوام میں ان کی اثر پذیری کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے کئی ایک ’مذہبی‘ سکالروں کی مقبولیت اسی پردئہ سیمیں کی مرہونِ منت ہے اور محض اسی سبب وہ اسلامیانِ پاکستان کے مذہبی قائد و رہنما کے منصب و اِعزاز پر براجمان ہیں جبکہ ان کے پندارِ علم اوردینداری کا یہ عالم ہے کہ طبقہ علما میں نہ تو ان کی ذات کو کوئی اچھا تعارف حاصل ہے اور نہ ہی اُن کے پایۂ علم کو مستند خیال کیا جاتا ہے۔
ہر لمحے تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے اس ماحول اور زوال پذیر معاشرتی صورتحال کو ہر دردمند مسلمان بری طرح محسوس کرتا ہے۔ اور اسی تناظر میں ہر صاحب ِفکر یہ توقع کرتا دکھائی دیتا ہے کہ منبر ومحراب کے حقیقی وارث علماے کرام بھی اَب روایتی اُسلوبِ دعوت و تربیت سے آگے بڑھتے ہوئے ان ٹی وی چینلوں کے ذریعے ان کے مذہبی رجحانات کی تشفی کریں۔ یہاں یہ بنیادی نکتہ ان کی نظر سے اوجھل ہوجاتا ہے کہ جب دین کی مقدس تعلیم کو بھی مقصد وہدف سے قطع نظر ٹی وی چینل کے مالک کے جذبہ حصولِ منفعت کے پیش نظر ابلاغ کی لہروں کے سپرد کیا جائے گا تومنبر نبویؐ کا یہ مقدس مشن کیسے لوگوں کے سپرد ہوگا اورعوام کی دینی تعلیم وتدریس کی کون سی نوعیت اربابِ ابلاغ کے ہاں مطلوب ومعتبر قرار پائے گی…؟
یہ ہے ٹی وی پر تبلیغ دین کے موجودہ داعیہ کا پس منظر جس کی راہ میں اکثر وبیشتر اسلام کی رو سے مسئلہ تصویر حائل ہوتا رہا ہے۔ محتاط اور جید علما ے کرام اس بنا پر ہمیشہ ٹی وی پر آنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ یوں بھی ٹی وی کی سکرین جس طرزِ استدلال اور عاقلانہ معروضیت کی متقاضی ہے، ایمان وایقان کے اُسلوب میں ڈھلے اعتقادات و نظریات اس سے یکسر مختلف روحانی ماحول میں ہی پروان چڑھ سکتے ہیں۔

مسئلہ تصویر پر جملہ مکاتب ِفکر کا نمائندہ مذاکرہ
یہ مذاکرہ دراصل دو بنیادی موضوعات پر منعقد ہوا تھا :
1۔ تصویر، فوٹوگرافی اورویڈیو وغیرہ کی شرعی حیثیت
2۔دورِ حاضر میں تبلیغی ضروریات کے لئے تصویر، ٹی وی اور ویڈیو کا جواز ؟

آن لائن مطالعہ : الیکٹرونک میڈیا پر تصویرکا شرعی حکم ؛ تقابلی جائزہ
یونیکوڈ ورڈ فائل ڈاؤن لوڈ : ماہنامہ محدث۔مئی،جون 2008
 
Top