2500 میں خوشیوں کی ضمانت

2500 میں خوشیوں کی ضمانت

ایک پاكستانى چینل پر چلنے کرشماتی لاکٹ کے اشتہار کا علم ہوا۔ بقول بنانے والوں کے یہ کرشماتی لاکٹ سونے اور ہیرے سے بنا ہے اور اس كو پہننے والے كے ليے زندگی کی سارى خوشيوں كى ضمانت دى جاتى ہے۔ لاکٹ کا "ہدیہ " صرف 2500 روپے ہے۔
سمجھ نہيں آتى كہ جن كے پاس زندگی كى سب خوشياں فراہم كرنے والا لاکٹ ہے وہ كاروباراور اشتہار كى محنت ميں كيوں لگے ہيں ؟ ان كے گھر تو نوٹوں کے درخت لگنے چاہئیں ؟اور سونے اور ہيرے والے زيور صرف 2500 ميں دست ياب ہو سكتے ہيں تو ملك بھر کے صرافہ بازاروں ميں کيوں لوٹ مچی ہے؟

كيا ایک مسلمان قوم كى ان تمام احمقانہ باتوں كى وجہ يہی نہيں کہ ہم اس بنيادى عقيدے سے انحراف كر بيٹھے ہيں کہ نفع و نقصان عطا کرنے والی صرف اللہ سبحانہ و تعالى كى ذات ہے :

وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّ۔هُ بِضُرٍّ‌ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِ‌دْكَ بِخَيْرٍ‌ فَلَا رَ‌ادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ‌ الرَّ‌حِيمُ ﴿١٠٧﴾ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكُمْ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ ﴿١٠٨﴾ وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَاصْبِرْ‌ حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّ۔هُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ‌ الْحَاكِمِينَ ﴿١٠٩﴾


اور اگر تم کو اللہ کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے واﻻ نہیں ہے اور اگر وه تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے واﻻ نہیں، وه اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کردے اور وه بڑی مغفرت بڑی رحمت واﻻ ہے (107) آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! تمہارے پاس حق تمہارے رب کی طرف سے پہنچ چکا ہے، اس لیے جو شخص راه راست پر آجائے سو وه اپنے واسطے راه راست پر آئے گا اور جو شخص بے راه رہے گا تو اس کا بے راه ہونا اسی پر پڑے گا اور میں تم پر مسلط نہیں کیا گیا (10 اور آپ اس کی اتباع کرتے رہیے جو کچھ آپ کے پاس وحی بھیجی جاتی ہے اور صبر کیجئے یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کردے اور وه سب فیصلہ کرنے والوں میں اچھا ہے (109)سورة يونس​

اس بنیادی اسلامی عقيدے كى ياد دہانی پر ہم سے كہا جاتا ہے كہ ہم مسلمانوں كو مشرك کہتے ہيں ؟ ہم تو شرك كو شرك كہتے ہيں اور مسلمانوں كو شرك سے بچانے كى كوشش كرتے ہيں ، كيوں نہ كہيں ہمارے حبيب حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے بھی " لا " سے تبليغ شروع كى تھی اور " الا اللہ " كى منزل تك پہنچايا تھا ، باطل خداؤں اور جھوٹے شريكوں كى نفى كرنا ان كو مشرك بتانا اختلاف ہے تو يہ اختلاف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو بھی مشركين مكہ سے کرنا پڑا تھا ، اسى اختلاف كى خاطر حضرت ابراھيم عليہ السلام كو نمرود كى بھڑکائى ہوئى آگ کے الاؤ ميں کودنا پڑا تھا ، اسى اختلاف كے جرم ميں اصحاب الاخدود جلوائے گئے تھے، يہ اختلاف تو انبياء ، صديقين ، شھداءاور صالحين كى سنت ہے ، يہ ممكن ہی نہيں كہ ہم اتحاد كے دھوکے ميں اس باطل سے سمجھوتہ كريں كيوں کہ ہمارے رب رحيم كا فرمان ہے :

" اور آپ اس کی اتباع کرتے رہیے جو کچھ آپ کے پاس وحی بھیجی جاتی ہے اور صبر کیجئے یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کردے اور وه سب فیصلہ کرنے والوں میں اچھا ہے (109)" سورة يونس

ان شاء اللہ ہم اپنے رب کے كرم سے اس كى وحى كا اتباع كرتے رہيں گے اور صبر كريں گے يہاں تك كہ اللہ فيصلہ كر دے ور وه سب فیصلہ کرنے والوں میں بہترین منصف ہے ۔

مسلمان ملكوں کے چينلوں پر نجوميوں ، جوتشیوں اور روحانی (بقول ان کے) و سفلی علوم کے ماہر جادوگروں کی ایسی تشہیر بہت بڑا اجتماعی جرم ہے۔ شرك جيسے گناہ كى طرف يہ کھلى دعوت اللہ سبحانہ و تعالى كے غضب كو آواز دينے كے مترادف ہے ۔ ہم ميں سے ہر شخص كا فرض ہے كہ وہ مسلمانوں كو ان توہمات و خرافات سے بچانے كى كوشش كرے۔
 

شمشاد

لائبریرین
جزاک اللہ اُم نور العین

ہمارے معاشرے میں اکثریت ایسے حضرات اور زیادہ تر خواتین کی ہے جو اس قسم کی جذباتی باتوں پر ہر وقت بیوقوف بننے کو تیار ہیں، بس کوئی بنانے والا چاہیے۔ مزید یہ کہ اس قسم کے خواتین و حضرات کو آپ سمجھا بھی نہیں سکتے۔

اللہ ہی ہے جو ان کو ہدایت دے۔
 
واياك بھائی۔ دراصل اشتہارات انسانى نفسيات كے مطابق مسلسل ترغيب كے اصول پر بنائے جاتے ہيں ۔ بے علم افراد كے علاوہ بعض لوگ اچھے خاصے راسخ العقيدہ ہونے کے باوجود كسى انتہائى مشكل ميں اس مسلسل ترغيب كے ہاتھوں مجبور ہو كر ان خرافات كو " آزمانے" چل پڑتے ہيں ۔ اللہ سبحانہ وتعالى سے محبت اور توكل كا تعلق مضبوط تر كر ليا جائے تو انسان كبھی ان باتوں كو " آزمانے " كى طرف نہيں جائے گا ۔اور نہ ہی دو ڈھائى ہزار ميں زندگی بھر كى مسرتوں كا مشركانہ سودا كرے گا ۔اسے تو يہی كہہ سكتے ہيں : ايمانے فروختند و چہ ارزاں فروختند
 
Top