اردو محفل کا مشاعرہ برائے ۲۰۱۲ء ( تبصرہ جات کی لڑی)

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اتنی تاخیر سے آنے پر بے حد معذرت کے ساتھ !!!!
تاخیر سے آئی ہیں تو کہتے ہیں نا کہ کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا تو معذرت کیسی۔

ہے فکر و تدبر و فقاہت یہ سیاست
کہتے ہیں خدا کی ہے نیابت یہ سیاست

اب دیکھو تو بس طمع و تحریصِ زر و زور
لگتی ہے فقط ان سے عبارت یہ سیاست

پہنچائے یہ تختے پہ تو بخشے ہے کبھی تخت
سب دیکھو تو کیسی ہے کرامت یہ سیاست

لو حسرت و افلاس زدہ میرے وطن پر
پھر اتری ہے اک بن کے قیامت یہ سیاست
اچھی غزل ہے


ڈھل گئی شام، رات آ پنہچی
کھل گئی آنکھ چند خوابوں کی

چاند پہلو میں میرے آ بیٹھا
چاندنی چار سوُ بکھرنے لگی

خشک ہونٹوں پہ آ کے دھیرے سے
پیاس کی چاشنی مہکنے لگی

زرد آنکھوں میں تیرتی شبنم
خواب کے نقشِ پا کھرچنے لگی

خامشی کا فسوں سمٹنے لگا
تری تصویر بات کرنے لگی
ایک ایک شعر لا جواب ہے۔



"خواہشِ جستجو ،ہو تم شاید
حاصلِ آرزو ،ہو تم شائد

نیم تاریک شب کی خاموشی
شام کی گفتگو ،ہو تم شاید

یا مری ذات کا ہے یہ پرتو
یا تو پھر ہو بہ ہو ،ہو تم شاید

آج پھر حرف سانس لینے لگے
آج پھر رو برو ،ہو تم شاید

جو بہاروں کی رخ کی ہے لالی
اسی رت کی نمو ،ہو تم شاید
اس غزل کی کیا تعریف کروں، دل کرتا ہے کہ اسے اپنے بلاگ کی زینت بنا لوں، اپنی ڈائری میں لکھوں۔
حد سے زیادہ پیاری غزل۔ کیا کہنے۔ سبحان اللہ!

اور آخر میں ایک شعر!

جستجو پہنچی ہے ان آنکھوں تلک پھیلائے پر
اور اب اک رائیگانی کا سفر درپیش ہے !!!
بہت عمدہ شعر۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
غزل سے پہلے بحضور آقائے نامدار ،سرورِ کونین،خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نعتیہ اشعار

جُھلستے دہر میں تُو نے ہی انساں کو بچایا ہے
مکان و لا مکاں تک تُو ہی تو رحمت کا سایہ ہے

غزل! تن من سخن صدقے تری ناموس پر تُو نے
زمانے میں تھے ہم کافر ہمیں مومن بنایا ہے

واہ
سبحان اللہ!
کیا پیارے اشعار ہیں۔
زمانے میں تھے ہم کافر ہمیں مومن بنایا ہے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سب سے پہلے دو اشعار اپنے اپنے مجازی خدا سید زوہیب ہاشمی جی کے نام کیونکہ یہ اہم ہے ناں ورنہ وہ ناراض ہو جائیں گے :)

۔
چاند مجھ کو وہ غزل ماہ جبیں کہتا ہے
مجھ سی صورت کو زمانے سے حسیں کہتا ہے
پیار میں اس کے خدا بھولوں تو کافر ٹھہروں
بھولوں سجدے میں اسے، حجرہ نشیں کہتا ہے
بہت پیارے اشعار ہیں

یہ پہلی غزل پیارے بھیا جانی سعود اور بھیا جانی محمود مغل کے نام کرتی ہوں

مقفل ہی سہی لیکن نظر کے اسم ِ اعظم سے
کھلے ہیں وقت کے زنداں میں دروازے کئی ہم سے

طلوعِ صبح کے منظر تراشے ہیں نگاہوں نے
ہیولے ظلمتوں کے ہر طرف پھرتے ہیں برہم سے

ہم اپنے جسم کی سرحد سے بھی آگے نکل آئے
کبھی رکتی نہیں ہے بوئے گل دیوارِ شبنم سے

پریشانی مرے چاروں طرف ہے گرد کی صورت
بیابانِ بلا میں حشر برپا ہے مرے دم سے

یہ میری ذات کا صحرا نہ گم کردے کہیں مجھ کو
عجب ڈر ہے کہ خود کو دیکھتی ہوں چشمِ عالم سے
بہت پیارا شعر

ہری شاخوں سے لپٹی ہے پرانے موسموں کی باس
ابھی فارغ نہیں ہوں میں گئے لمحوں کے ماتم سے
واہ۔ ابھی فارغ نہیں ہوں میں گئے لمحوں کے ماتم سے

یہ آسیبِ تمنا روح کے اجڑے مکانوں سے
بدل کر صورتیں اب جھانکتے ہیں روزنِ غم سے

غزل اس عہد میں ایسے دلوں کے خشک ہیں چشمے
بدن کی پیاس بھی بجھتی نہیں ہے آنکھ کے نم سے
مقطع اس غزل میں سب سے زیادہ پسند آیا۔
۔
آج ہی لکھی یہ دوسری غزل اپنے استاد گرامی سر فاروق درویش اور بابا جانی سر عبید کے نام

دلوں میں حبس کا عالم پرانی عادتوں سے ہے
لبوں پر تلخیوں کا زہر بگڑے ذائقوں سے ہے

جو اجڑا شہر خوابوں کا تو اپنے دل کا صحرا بھی
کسی سوکھے ہوئے دریا کی صورت مدتوں سے ہے

سمندر پار ظلمت میں مرا خورشید ڈوبا ہے
ہراساں صبح کے ساحل پہ دل تاریکیوں سے ہے

مہکتے پھول بھی ڈسنے لگے ہیں سانپ کی صورت
فضا گلشن میں بھی اپنے دلوں کے موسموں سے ہے
بہت خوب!

انہیں لمحوں کی آہٹ سے ملیں بیداریاں مجھ کو
مرے دریا کی جولانی سمے کے پانیوں سے ہے

وہ آنچ آنے لگی خود سے کہ دل ڈرنے لگا اپنا
جہنم روح کا بھڑکا ہوا خاموشیوں سے ہے
یہ دو اشعار بھی بہت اچھے ہیں

کھلیں آنکھیں تو سیلِ نور میں ڈوبا ہوا پایا
مرے سورج کی تابانی نظر کے شعبدوں سے ہے

غزل اس راہ میں صدیوں کی دیواریں بھی حائل ہیں
نئی دنیا ابھی تک اوٹ میں ان ظلمتوں سے ہے
مقطع پھر لا جواب ہے۔
۔
اس کے ساتھ ہی صدر مشاعرہ اور معزز احبابَ محفل سے اجازت چاہتی ہوں، آپ سب کے لئے ڈھیروں دعائیں اور نیک تمنائیں۔ اللہ دین و دنیا میں سرفرازیاں عطا فرمائیں۔ اللہ حافظ

سیدہ سارا غزل ہاشمی
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اس عزت افزائی کیلئے بیحد شکرگذار ہوں ۔ اگرچہ میں باقاعدہ شاعر تو نہیں ، اور نہ ہی کبھی کسی مشاعرے میں شرکت کا تفاق ہوا ہے۔بس کبھی کبھی کچھ تک بندی کرلیا کرتا ہوں۔ کافی عرصے سے کچھ نہیں لکھا۔ اسلئے باسی کلام پر ہی اکتفا فرمائیے۔۔۔ ایک دو چھوٹی سی نظمیں احباب کی نظر۔۔(عین ممکن ہے کہ ان میں کچھ غلطیاں ہوں، اسلئیے پیشگی معذرت)۔۔ :)
تُو ہی تُو
سارے تیرے روپ گھنیرے​
گہرے رنگ ہیں تیرے۔۔۔​
جن کو اب تک دیکھ نہ پایا​
وہ منظر بھی تیرے۔۔۔​
جن کو سوچوں، جان نہ پاؤں​
سارے بھید وہ تیرے۔۔۔ ۔​
کیسی یہ خاموشی ہر دم​
گونجے چار چوفیرے۔۔​
جیسے گیت پہاڑی دُھن میں​
ان دیکھے نے چھیڑے۔۔۔​
جو خوشبو مں چھو نہ پاؤں​
کیوں مجھ کو وہ گھیرے​
جن پھولوں کی خاطر پاؤں​
زخمی ہوگئے میرے۔۔۔​
وہ سب پھول بھی تیرے تھے​
اور وہ کانٹے بھی تیرے۔۔۔​
میرے دشمن میرے ساجن​
ظاہر باطن میرے۔۔۔ ۔۔​
میری ذات کے سارےموسم​
پت جھڑ،ساون۔۔۔ تیرے​
میرے سارے سانجھ سویرے​
میرے دھوپ، اندھیرے۔۔​
میرے سارے کنکر پتھر​
ہیرے موتی۔۔۔ تیرے​
میرا مجھ میں کچھ بھی نہیں ہے​
تُو ہے، یہ سب تیرے۔۔۔ ۔​
ماشاءاللہ! جناب آپ تو چھپے رستم نکلے۔
پہلی دفعہ شاید آپ کی شاعری پڑھی ہے
اور پہلی دفعہ میں ہی دل پہ لگی ہے۔

خاموشیاں ، تنہائیاں
مری خاموشیوں میں گونجتا ہے​
تُو زیروبم میں جس کو ڈھونڈتا ہے​
میں اک بانگِ جرس کا منتظر ہوں​
سکوتِ شب میں صحرا اونگھتا ہے​
کسی محمل نشیں کا فیض ورنہ​
وجد میں کون ایسے جھومتا ہے​
یوں آنکھیں موند لیں دیکھا اسے جب​
کوئی چوکھٹ کو جیسے چومتا ہے۔۔۔​
مری تنہائیاں محفل بنی ہیں​
مرا نغمہ مجھی میں گونجتا ہے​
مرا نغمہ مجھی میں گونجتا ہے
واہ کیا کہنے آپ کے!
مسافر بھول مت جانا
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
بہت لمبی مسافت میں
تھکن سے چور راہی کو
پڑاؤ روک لیتے ہیں
کسی دریا کے دھارے کو
کنارے روک لیتے ہیں
پہاڑوں کی بلندی سے
زمیں کی گود میں جاتے ہوئے
جھرنوں کے نغموں کو
کئی رِم جِھم سے راگوں کو
بڑی خاموش باتوں کو
زمیں کی گود میں پنہاں سہارے
ٹوک دیتے ہیں۔۔۔ ۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کہ جیون دھوپ چھاؤں میں
کسی راہی کی راہوں میں
کچھ ایسے جھوک آتے ہیں
جو خوشبو کے جزیروں کی
ہوا کو روک لیتے ہیں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کہ مدت کے تھکے ماندے
غبار آلود راہی کو
کچھ ایسے لوگ ملتے ہیں
بڑے فنکار ہوتے ہیں
مجسمہ ساز ہوتے ہیں
مصور کی طرح آکر
مسافر کی مسافت کو
کسی تصویر کی صورت
کئی رنگوں لکیروں میں
سمو کر باندھ لیتے ہیں
مسافر بھول جاتا ہے
اسے کس دیس جانا تھا
مسافر بھول مت جانا
سفر ہی زندگانی ہے
کہ دریاؤں کی قسمت میں
روانی ہی روانی ہے
مسافر بھول مت جانا
تمہیں کس دیس جانا ہے
یہ نظم سب سے زیادہ پسند آئی۔ روانی ہی روانی ہے نظم میں بھی۔
نجانے کیا کیا یاد دلا دیا آجے آپ نے۔

 

محمد وارث

لائبریرین
ہے فکر و تدبر و فقاہت یہ سیاست
کہتے ہیں خدا کی ہے نیابت یہ سیاست

اب دیکھو تو بس طمع و تحریصِ زر و زور
لگتی ہے فقط ان سے عبارت یہ سیاست

پہنچائے یہ تختے پہ تو بخشے ہے کبھی تخت
سب دیکھو تو کیسی ہے کرامت یہ سیاست

لو حسرت و افلاس زدہ میرے وطن پر
پھر اتری ہے اک بن کے قیامت یہ سیاست


ڈھل گئی شام، رات آ پنہچی
کھل گئی آنکھ چند خوابوں کی

چاند پہلو میں میرے آ بیٹھا
چاندنی چار سوُ بکھرنے لگی

خشک ہونٹوں پہ آ کے دھیرے سے
پیاس کی چاشنی مہکنے لگی

زرد آنکھوں میں تیرتی شبنم
خواب کے نقشِ پا کھرچنے لگی

خامشی کا فسوں سمٹنے لگا
تری تصویر بات کرنے لگی


"خواہشِ جستجو ،ہو تم شاید
حاصلِ آرزو ،ہو تم شائد

نیم تاریک شب کی خاموشی
شام کی گفتگو ،ہو تم شاید

یا مری ذات کا ہے یہ پرتو
یا تو پھر ہو بہ ہو ،ہو تم شاید

آج پھر حرف سانس لینے لگے
آج پھر رو برو ،ہو تم شاید

جو بہاروں کی رخ کی ہے لالی
اسی رت کی نمو ،ہو تم شاید

اور آخر میں ایک شعر!

جستجو پہنچی ہے ان آنکھوں تلک پھیلائے پر
اور اب اک رائیگانی کا سفر درپیش ہے !!!

انتہائی خوبصورت کلام ہے زھرا علوی صاحبہ، کیا کہنے، لاجواب۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تُو ہی تُو
سارے تیرے روپ گھنیرے​
گہرے رنگ ہیں تیرے۔۔۔​
جن کو اب تک دیکھ نہ پایا​
وہ منظر بھی تیرے۔۔۔​
جن کو سوچوں، جان نہ پاؤں​
سارے بھید وہ تیرے۔۔۔ ۔​
کیسی یہ خاموشی ہر دم​
گونجے چار چوفیرے۔۔​
جیسے گیت پہاڑی دُھن میں​
ان دیکھے نے چھیڑے۔۔۔​
جو خوشبو مں چھو نہ پاؤں​
کیوں مجھ کو وہ گھیرے​
جن پھولوں کی خاطر پاؤں​
زخمی ہوگئے میرے۔۔۔​
وہ سب پھول بھی تیرے تھے​
اور وہ کانٹے بھی تیرے۔۔۔​
میرے دشمن میرے ساجن​
ظاہر باطن میرے۔۔۔ ۔۔​
میری ذات کے سارےموسم​
پت جھڑ،ساون۔۔۔ تیرے​
میرے سارے سانجھ سویرے​
میرے دھوپ، اندھیرے۔۔​
میرے سارے کنکر پتھر​
ہیرے موتی۔۔۔ تیرے​
میرا مجھ میں کچھ بھی نہیں ہے​
تُو ہے، یہ سب تیرے۔۔۔ ۔​

خاموشیاں ، تنہائیاں
مری خاموشیوں میں گونجتا ہے​
تُو زیروبم میں جس کو ڈھونڈتا ہے​
میں اک بانگِ جرس کا منتظر ہوں​
سکوتِ شب میں صحرا اونگھتا ہے​
کسی محمل نشیں کا فیض ورنہ​
وجد میں کون ایسے جھومتا ہے​
یوں آنکھیں موند لیں دیکھا اسے جب​
کوئی چوکھٹ کو جیسے چومتا ہے۔۔۔​
مری تنہائیاں محفل بنی ہیں​
مرا نغمہ مجھی میں گونجتا ہے​
مسافر بھول مت جانا
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
بہت لمبی مسافت میں
تھکن سے چور راہی کو
پڑاؤ روک لیتے ہیں
کسی دریا کے دھارے کو
کنارے روک لیتے ہیں
پہاڑوں کی بلندی سے
زمیں کی گود میں جاتے ہوئے
جھرنوں کے نغموں کو
کئی رِم جِھم سے راگوں کو
بڑی خاموش باتوں کو
زمیں کی گود میں پنہاں سہارے
ٹوک دیتے ہیں۔۔۔ ۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کہ جیون دھوپ چھاؤں میں
کسی راہی کی راہوں میں
کچھ ایسے جھوک آتے ہیں
جو خوشبو کے جزیروں کی
ہوا کو روک لیتے ہیں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کہ مدت کے تھکے ماندے
غبار آلود راہی کو
کچھ ایسے لوگ ملتے ہیں
بڑے فنکار ہوتے ہیں
مجسمہ ساز ہوتے ہیں
مصور کی طرح آکر
مسافر کی مسافت کو
کسی تصویر کی صورت
کئی رنگوں لکیروں میں
سمو کر باندھ لیتے ہیں
مسافر بھول جاتا ہے
اسے کس دیس جانا تھا
مسافر بھول مت جانا
سفر ہی زندگانی ہے
کہ دریاؤں کی قسمت میں
روانی ہی روانی ہے
مسافر بھول مت جانا
تمہیں کس دیس جانا ہے

کیا کہنے محمود احمد غزنوی صاحب، واہ واہ
 

نایاب

لائبریرین
:)
تُو ہی تُو
سارے تیرے روپ گھنیرے​
گہرے رنگ ہیں تیرے۔۔۔​
جن کو اب تک دیکھ نہ پایا​
وہ منظر بھی تیرے۔۔۔​
جن کو سوچوں، جان نہ پاؤں​
سارے بھید وہ تیرے۔۔۔ ۔​
کیسی یہ خاموشی ہر دم​
گونجے چار چوفیرے۔۔​
جیسے گیت پہاڑی دُھن میں​
ان دیکھے نے چھیڑے۔۔۔​
جو خوشبو مں چھو نہ پاؤں​
کیوں مجھ کو وہ گھیرے​
جن پھولوں کی خاطر پاؤں​
زخمی ہوگئے میرے۔۔۔​
وہ سب پھول بھی تیرے تھے​
اور وہ کانٹے بھی تیرے۔۔۔​
میرے دشمن میرے ساجن​
ظاہر باطن میرے۔۔۔ ۔۔​
میری ذات کے سارےموسم​
پت جھڑ،ساون۔۔۔ تیرے​
میرے سارے سانجھ سویرے​
میرے دھوپ، اندھیرے۔۔​
میرے سارے کنکر پتھر​
ہیرے موتی۔۔۔ تیرے​
میرا مجھ میں کچھ بھی نہیں ہے​
تُو ہے، یہ سب تیرے۔۔۔ ۔​

خاموشیاں ، تنہائیاں
مری خاموشیوں میں گونجتا ہے​
تُو زیروبم میں جس کو ڈھونڈتا ہے​
میں اک بانگِ جرس کا منتظر ہوں​
سکوتِ شب میں صحرا اونگھتا ہے​
کسی محمل نشیں کا فیض ورنہ​
وجد میں کون ایسے جھومتا ہے​
یوں آنکھیں موند لیں دیکھا اسے جب​
کوئی چوکھٹ کو جیسے چومتا ہے۔۔۔​
مری تنہائیاں محفل بنی ہیں​
مرا نغمہ مجھی میں گونجتا ہے​
مسافر بھول مت جانا
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
بہت لمبی مسافت میں
تھکن سے چور راہی کو
پڑاؤ روک لیتے ہیں
کسی دریا کے دھارے کو
کنارے روک لیتے ہیں
پہاڑوں کی بلندی سے
زمیں کی گود میں جاتے ہوئے
جھرنوں کے نغموں کو
کئی رِم جِھم سے راگوں کو
بڑی خاموش باتوں کو
زمیں کی گود میں پنہاں سہارے
ٹوک دیتے ہیں۔۔۔ ۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کہ جیون دھوپ چھاؤں میں
کسی راہی کی راہوں میں
کچھ ایسے جھوک آتے ہیں
جو خوشبو کے جزیروں کی
ہوا کو روک لیتے ہیں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کہ مدت کے تھکے ماندے
غبار آلود راہی کو
کچھ ایسے لوگ ملتے ہیں
بڑے فنکار ہوتے ہیں
مجسمہ ساز ہوتے ہیں
مصور کی طرح آکر
مسافر کی مسافت کو
کسی تصویر کی صورت
کئی رنگوں لکیروں میں
سمو کر باندھ لیتے ہیں
مسافر بھول جاتا ہے
اسے کس دیس جانا تھا
مسافر بھول مت جانا
سفر ہی زندگانی ہے
کہ دریاؤں کی قسمت میں
روانی ہی روانی ہے
مسافر بھول مت جانا
تمہیں کس دیس جانا ہے

واہہہہہہہہہہ
کیا خوبصورت گہرائی کی حامل مہکتی نظمیں ہیں ۔
"تو ہی تو"
" مسافر بھول مت جانا "
یہ تو چوری کروں گا اور " اسے " سناتے دل اس کا مہکاؤں گا ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
محترمہ زھرا علوی صاحبہ​
سب سے پہلے تو آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے اپنا کلام پیش کیا، انتظار تو آپ نے بہت کروایا لیکن کہتے ہیں کہ اچھی چیز ذرا دیر سے ہی ملتی ہے :) سو آپ کا کلام بھی اسی مقولے کی عملی تصویر ہے۔​
ماشاءاللہ بہت عمدہ کلام پیش کیا ہے آپ نے ۔ پڑھ کر دل شاد ہوا۔​
ان اشعار پر خاص طور پر داد قبول کیجے۔​
ڈھل گئی شام، رات آ پنہچی
کھل گئی آنکھ چند خوابوں کی
چاند پہلو میں میرے آ بیٹھا
چاندنی چار سوُ بکھرنے لگی
خشک ہونٹوں پہ آ کے دھیرے سے
پیاس کی چاشنی مہکنے لگی
"خواہشِ جستجو ،ہو تم شاید
حاصلِ آرزو ،ہو تم شائد
نیم تاریک شب کی خاموشی
شام کی گفتگو ،ہو تم شاید
آج پھر حرف سانس لینے لگے
آج پھر رو برو ،ہو تم شاید
جو بہاروں کی رخ کی ہے لالی
اسی رت کی نمو ،ہو تم شاید
اور آخر میں ایک شعر!​
جستجو پہنچی ہے ان آنکھوں تلک پھیلائے پر
اور اب اک رائیگانی کا سفر درپیش ہے !!!
بہت شکریہ۔۔۔۔ خوش رہیے۔​
 

محمداحمد

لائبریرین
احباب کی خدمت میں سارا غزل کا سلام و آداب۔ اردو محفل کی سالگرہ پر محفل کی انتظامیہ اور ممبران کو ڈھیروں مبارک اور اس مشاعرہ کے انعقاد کے لئے سر خلیل الرحمن بھیا خرم شہزاد، بھیا محمد احمد، بھیا بلال اور دیگر دوستوں کو بہت بہت مبارک ۔ بھیا جانی سعود، بھیا جانی محمود مغل اور بابا جانی عبید صاحب کے لئے بہت ساری دعائیں۔

بہت شکریہ سارہ بہن کے آپ تشریف لائیں اور مشاعرے کی رونقوں میں اضافہ کیا۔

خوش رہیئے۔
 
اتنی تاخیر سے آنے پر بے حد معذرت کے ساتھ !!!!


ہے فکر و تدبر و فقاہت یہ سیاست
کہتے ہیں خدا کی ہے نیابت یہ سیاست

اب دیکھو تو بس طمع و تحریصِ زر و زور
لگتی ہے فقط ان سے عبارت یہ سیاست

پہنچائے یہ تختے پہ تو بخشے ہے کبھی تخت
سب دیکھو تو کیسی ہے کرامت یہ سیاست

لو حسرت و افلاس زدہ میرے وطن پر
پھر اتری ہے اک بن کے قیامت یہ سیاست


ڈھل گئی شام، رات آ پنہچی
کھل گئی آنکھ چند خوابوں کی

چاند پہلو میں میرے آ بیٹھا
چاندنی چار سوُ بکھرنے لگی

خشک ہونٹوں پہ آ کے دھیرے سے
پیاس کی چاشنی مہکنے لگی

زرد آنکھوں میں تیرتی شبنم
خواب کے نقشِ پا کھرچنے لگی

خامشی کا فسوں سمٹنے لگا
تری تصویر بات کرنے لگی



"خواہشِ جستجو ،ہو تم شاید
حاصلِ آرزو ،ہو تم شائد

نیم تاریک شب کی خاموشی
شام کی گفتگو ،ہو تم شاید

یا مری ذات کا ہے یہ پرتو
یا تو پھر ہو بہ ہو ،ہو تم شاید

آج پھر حرف سانس لینے لگے
آج پھر رو برو ،ہو تم شاید

جو بہاروں کی رخ کی ہے لالی
اسی رت کی نمو ،ہو تم شاید

اور آخر میں ایک شعر!

جستجو پہنچی ہے ان آنکھوں تلک پھیلائے پر
اور اب اک رائیگانی کا سفر درپیش ہے !!!

بہت عمدہ! واہ واہ! کیا کہنے۔ ۔ سبحان اللہ
 
سب سے پہلے دو اشعار اپنے اپنے مجازی خدا سید زوہیب ہاشمی جی کے نام کیونکہ یہ اہم ہے ناں ورنہ وہ ناراض ہو جائیں گے :)

۔
چاند مجھ کو وہ غزل ماہ جبیں کہتا ہے
مجھ سی صورت کو زمانے سے حسیں کہتا ہے
پیار میں اس کے خدا بھولوں تو کافر ٹھہروں
بھولوں سجدے میں اسے، حجرہ نشیں کہتا ہے

یہ پہلی غزل پیارے بھیا جانی سعود اور بھیا جانی محمود مغل کے نام کرتی ہوں

مقفل ہی سہی لیکن نظر کے اسم ِ اعظم سے
کھلے ہیں وقت کے زنداں میں دروازے کئی ہم سے

طلوعِ صبح کے منظر تراشے ہیں نگاہوں نے
ہیولے ظلمتوں کے ہر طرف پھرتے ہیں برہم سے

ہم اپنے جسم کی سرحد سے بھی آگے نکل آئے
کبھی رکتی نہیں ہے بوئے گل دیوارِ شبنم سے

پریشانی مرے چاروں طرف ہے گرد کی صورت
بیابانِ بلا میں حشر برپا ہے مرے دم سے

یہ میری ذات کا صحرا نہ گم کردے کہیں مجھ کو
عجب ڈر ہے کہ خود کو دیکھتی ہوں چشمِ عالم سے

ہری شاخوں سے لپٹی ہے پرانے موسموں کی باس
ابھی فارغ نہیں ہوں میں گئے لمحوں کے ماتم سے

یہ آسیبِ تمنا روح کے اجڑے مکانوں سے
بدل کر صورتیں اب جھانکتے ہیں روزنِ غم سے

غزل اس عہد میں ایسے دلوں کے خشک ہیں چشمے
بدن کی پیاس بھی بجھتی نہیں ہے آنکھ کے نم سے
۔
آج ہی لکھی یہ دوسری غزل اپنے استاد گرامی سر فاروق درویش اور بابا جانی سر عبید کے نام

دلوں میں حبس کا عالم پرانی عادتوں سے ہے
لبوں پر تلخیوں کا زہر بگڑے ذائقوں سے ہے

جو اجڑا شہر خوابوں کا تو اپنے دل کا صحرا بھی
کسی سوکھے ہوئے دریا کی صورت مدتوں سے ہے

سمندر پار ظلمت میں مرا خورشید ڈوبا ہے
ہراساں صبح کے ساحل پہ دل تاریکیوں سے ہے

مہکتے پھول بھی ڈسنے لگے ہیں سانپ کی صورت
فضا گلشن میں بھی اپنے دلوں کے موسموں سے ہے

انہیں لمحوں کی آہٹ سے ملیں بیداریاں مجھ کو
مرے دریا کی جولانی سمے کے پانیوں سے ہے

وہ آنچ آنے لگی خود سے کہ دل ڈرنے لگا اپنا
جہنم روح کا بھڑکا ہوا خاموشیوں سے ہے

کھلیں آنکھیں تو سیلِ نور میں ڈوبا ہوا پایا
مرے سورج کی تابانی نظر کے شعبدوں سے ہے

غزل اس راہ میں صدیوں کی دیواریں بھی حائل ہیں
نئی دنیا ابھی تک اوٹ میں ان ظلمتوں سے ہے
۔
اس کے ساتھ ہی صدر مشاعرہ اور معزز احبابَ محفل سے اجازت چاہتی ہوں، آپ سب کے لئے ڈھیروں دعائیں اور نیک تمنائیں۔ اللہ دین و دنیا میں سرفرازیاں عطا فرمائیں۔ اللہ حافظ

سیدہ سارا غزل ہاشمی

کلام تو داد سے بہت آگے کا ہے۔ خیر بہت خوب! اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
سب سے پہلے دو اشعار اپنے اپنے مجازی خدا سید زوہیب ہاشمی جی کے نام کیونکہ یہ اہم ہے ناں ورنہ وہ ناراض ہو جائیں گے :)

:D اُن کا خیال واقعی بہت ضروری ہے۔
۔

چاند مجھ کو وہ غزل ماہ جبیں کہتا ہے
مجھ سی صورت کو زمانے سے حسیں کہتا ہے
پیار میں اس کے خدا بھولوں تو کافر ٹھہروں
بھولوں سجدے میں اسے، حجرہ نشیں کہتا ہے


خوب ۔۔۔!

یہ پہلی غزل پیارے بھیا جانی سعود اور بھیا جانی محمود مغل کے نام کرتی ہوں

مقفل ہی سہی لیکن نظر کے اسم ِ اعظم سے
کھلے ہیں وقت کے زنداں میں دروازے کئی ہم سے

طلوعِ صبح کے منظر تراشے ہیں نگاہوں نے
ہیولے ظلمتوں کے ہر طرف پھرتے ہیں برہم سے

ہم اپنے جسم کی سرحد سے بھی آگے نکل آئے
کبھی رکتی نہیں ہے بوئے گل دیوارِ شبنم سے

پریشانی مرے چاروں طرف ہے گرد کی صورت
بیابانِ بلا میں حشر برپا ہے مرے دم سے

یہ میری ذات کا صحرا نہ گم کردے کہیں مجھ کو
عجب ڈر ہے کہ خود کو دیکھتی ہوں چشمِ عالم سے

ہری شاخوں سے لپٹی ہے پرانے موسموں کی باس
ابھی فارغ نہیں ہوں میں گئے لمحوں کے ماتم سے

یہ آسیبِ تمنا روح کے اجڑے مکانوں سے
بدل کر صورتیں اب جھانکتے ہیں روزنِ غم سے

غزل اس عہد میں ایسے دلوں کے خشک ہیں چشمے
بدن کی پیاس بھی بجھتی نہیں ہے آنکھ کے نم سے
۔

واہ۔۔۔۔! بہت ہی شاندار غزل ہے۔

آج ہی لکھی یہ دوسری غزل اپنے استاد گرامی سر فاروق درویش اور بابا جانی سر عبید کے نام

دلوں میں حبس کا عالم پرانی عادتوں سے ہے
لبوں پر تلخیوں کا زہر بگڑے ذائقوں سے ہے

جو اجڑا شہر خوابوں کا تو اپنے دل کا صحرا بھی
کسی سوکھے ہوئے دریا کی صورت مدتوں سے ہے

سمندر پار ظلمت میں مرا خورشید ڈوبا ہے
ہراساں صبح کے ساحل پہ دل تاریکیوں سے ہے

مہکتے پھول بھی ڈسنے لگے ہیں سانپ کی صورت
فضا گلشن میں بھی اپنے دلوں کے موسموں سے ہے

انہیں لمحوں کی آہٹ سے ملیں بیداریاں مجھ کو
مرے دریا کی جولانی سمے کے پانیوں سے ہے

وہ آنچ آنے لگی خود سے کہ دل ڈرنے لگا اپنا
جہنم روح کا بھڑکا ہوا خاموشیوں سے ہے

کھلیں آنکھیں تو سیلِ نور میں ڈوبا ہوا پایا
مرے سورج کی تابانی نظر کے شعبدوں سے ہے

غزل اس راہ میں صدیوں کی دیواریں بھی حائل ہیں
نئی دنیا ابھی تک اوٹ میں ان ظلمتوں سے ہے
۔
ماشاءاللہ۔۔۔۔! آپ کی غزلیات میں سے اشعار منتخب کرنا بہت مشکل کام ہے کہ ہر شعر اپنی جگہ لاجواب ہے۔

بہت عمدہ۔۔۔۔!


اس کے ساتھ ہی صدر مشاعرہ اور معزز احبابَ محفل سے اجازت چاہتی ہوں، آپ سب کے لئے ڈھیروں دعائیں اور نیک تمنائیں۔ اللہ دین و دنیا میں سرفرازیاں عطا فرمائیں۔ اللہ حافظ

سیدہ سارا غزل ہاشمی

بہت ساری داد حاضرِ خدمت ہے۔

اللہ کرے زورِ اور زیادہ۔
 
اس عزت افزائی کیلئے بیحد شکرگذار ہوں ۔ اگرچہ میں باقاعدہ شاعر تو نہیں ، اور نہ ہی کبھی کسی مشاعرے میں شرکت کا تفاق ہوا ہے۔بس کبھی کبھی کچھ تک بندی کرلیا کرتا ہوں۔ کافی عرصے سے کچھ نہیں لکھا۔ اسلئے باسی کلام پر ہی اکتفا فرمائیے۔۔۔ ایک دو چھوٹی سی نظمیں احباب کی نظر۔۔(عین ممکن ہے کہ ان میں کچھ غلطیاں ہوں، اسلئیے پیشگی معذرت)۔۔ :)
تُو ہی تُو
سارے تیرے روپ گھنیرے​
گہرے رنگ ہیں تیرے۔۔۔​
جن کو اب تک دیکھ نہ پایا​
وہ منظر بھی تیرے۔۔۔​
جن کو سوچوں، جان نہ پاؤں​
سارے بھید وہ تیرے۔۔۔ ۔​
کیسی یہ خاموشی ہر دم​
گونجے چار چوفیرے۔۔​
جیسے گیت پہاڑی دُھن میں​
ان دیکھے نے چھیڑے۔۔۔​
جو خوشبو مں چھو نہ پاؤں​
کیوں مجھ کو وہ گھیرے​
جن پھولوں کی خاطر پاؤں​
زخمی ہوگئے میرے۔۔۔​
وہ سب پھول بھی تیرے تھے​
اور وہ کانٹے بھی تیرے۔۔۔​
میرے دشمن میرے ساجن​
ظاہر باطن میرے۔۔۔ ۔۔​
میری ذات کے سارےموسم​
پت جھڑ،ساون۔۔۔ تیرے​
میرے سارے سانجھ سویرے​
میرے دھوپ، اندھیرے۔۔​
میرے سارے کنکر پتھر​
ہیرے موتی۔۔۔ تیرے​
میرا مجھ میں کچھ بھی نہیں ہے​
تُو ہے، یہ سب تیرے۔۔۔ ۔​

خاموشیاں ، تنہائیاں
مری خاموشیوں میں گونجتا ہے​
تُو زیروبم میں جس کو ڈھونڈتا ہے​
میں اک بانگِ جرس کا منتظر ہوں​
سکوتِ شب میں صحرا اونگھتا ہے​
کسی محمل نشیں کا فیض ورنہ​
وجد میں کون ایسے جھومتا ہے​
یوں آنکھیں موند لیں دیکھا اسے جب​
کوئی چوکھٹ کو جیسے چومتا ہے۔۔۔​
مری تنہائیاں محفل بنی ہیں​
مرا نغمہ مجھی میں گونجتا ہے​
مسافر بھول مت جانا
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
بہت لمبی مسافت میں
تھکن سے چور راہی کو
پڑاؤ روک لیتے ہیں
کسی دریا کے دھارے کو
کنارے روک لیتے ہیں
پہاڑوں کی بلندی سے
زمیں کی گود میں جاتے ہوئے
جھرنوں کے نغموں کو
کئی رِم جِھم سے راگوں کو
بڑی خاموش باتوں کو
زمیں کی گود میں پنہاں سہارے
ٹوک دیتے ہیں۔۔۔ ۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کہ جیون دھوپ چھاؤں میں
کسی راہی کی راہوں میں
کچھ ایسے جھوک آتے ہیں
جو خوشبو کے جزیروں کی
ہوا کو روک لیتے ہیں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کہ مدت کے تھکے ماندے
غبار آلود راہی کو
کچھ ایسے لوگ ملتے ہیں
بڑے فنکار ہوتے ہیں
مجسمہ ساز ہوتے ہیں
مصور کی طرح آکر
مسافر کی مسافت کو
کسی تصویر کی صورت
کئی رنگوں لکیروں میں
سمو کر باندھ لیتے ہیں
مسافر بھول جاتا ہے
اسے کس دیس جانا تھا
مسافر بھول مت جانا
سفر ہی زندگانی ہے
کہ دریاؤں کی قسمت میں
روانی ہی روانی ہے
مسافر بھول مت جانا
تمہیں کس دیس جانا ہے

بہت اعلی جناب۔ بہت خوب ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
تُو ہی تُو
سارے تیرے روپ گھنیرے​
گہرے رنگ ہیں تیرے۔۔۔​
جن کو اب تک دیکھ نہ پایا​
وہ منظر بھی تیرے۔۔۔​
جن کو سوچوں، جان نہ پاؤں​
سارے بھید وہ تیرے۔۔۔ ۔​
کیسی یہ خاموشی ہر دم​
گونجے چار چوفیرے۔۔​
جیسے گیت پہاڑی دُھن میں​
ان دیکھے نے چھیڑے۔۔۔​
جو خوشبو مں چھو نہ پاؤں​
کیوں مجھ کو وہ گھیرے​
جن پھولوں کی خاطر پاؤں​
زخمی ہوگئے میرے۔۔۔​
وہ سب پھول بھی تیرے تھے​
اور وہ کانٹے بھی تیرے۔۔۔​
میرے دشمن میرے ساجن​
ظاہر باطن میرے۔۔۔ ۔۔​
میری ذات کے سارےموسم​
پت جھڑ،ساون۔۔۔ تیرے​
میرے سارے سانجھ سویرے​
میرے دھوپ، اندھیرے۔۔​
میرے سارے کنکر پتھر​
ہیرے موتی۔۔۔ تیرے​
میرا مجھ میں کچھ بھی نہیں ہے​
تُو ہے، یہ سب تیرے۔۔۔ ۔​
خاموشیاں ، تنہائیاں​
مری خاموشیوں میں گونجتا ہے​
تُو زیروبم میں جس کو ڈھونڈتا ہے​
میں اک بانگِ جرس کا منتظر ہوں​
سکوتِ شب میں صحرا اونگھتا ہے​
کسی محمل نشیں کا فیض ورنہ​
وجد میں کون ایسے جھومتا ہے​
یوں آنکھیں موند لیں دیکھا اسے جب​
کوئی چوکھٹ کو جیسے چومتا ہے۔۔۔​
مری تنہائیاں محفل بنی ہیں​
مرا نغمہ مجھی میں گونجتا ہے​
مسافر بھول مت جانا
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے​
بہت لمبی مسافت میں​
تھکن سے چور راہی کو​
پڑاؤ روک لیتے ہیں​
کسی دریا کے دھارے کو​
کنارے روک لیتے ہیں​
پہاڑوں کی بلندی سے​
زمیں کی گود میں جاتے ہوئے​
جھرنوں کے نغموں کو​
کئی رِم جِھم سے راگوں کو​
بڑی خاموش باتوں کو​
زمیں کی گود میں پنہاں سہارے​
ٹوک دیتے ہیں۔۔۔ ۔​
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے​
کہ جیون دھوپ چھاؤں میں​
کسی راہی کی راہوں میں​
کچھ ایسے جھوک آتے ہیں​
جو خوشبو کے جزیروں کی​
ہوا کو روک لیتے ہیں​
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے​
کہ مدت کے تھکے ماندے​
غبار آلود راہی کو​
کچھ ایسے لوگ ملتے ہیں​
بڑے فنکار ہوتے ہیں​
مجسمہ ساز ہوتے ہیں​
مصور کی طرح آکر​
مسافر کی مسافت کو​
کسی تصویر کی صورت​
کئی رنگوں لکیروں میں​
سمو کر باندھ لیتے ہیں​
مسافر بھول جاتا ہے​
اسے کس دیس جانا تھا​
مسافر بھول مت جانا​
سفر ہی زندگانی ہے​
کہ دریاؤں کی قسمت میں​
روانی ہی روانی ہے​
مسافر بھول مت جانا​
تمہیں کس دیس جانا ہے​
محترم محمود غزنوی صاحب،​
آپ کی تینوں نظمیں ماشاءاللہ اتنی پیاری ہیں کہ جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ خوبصورت آہنگ، خیال آفرینی اور ندرتِ بیان تینوں نظموں میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔​
خاکسار کی جانب سے نذرانہ ء تحسین پیشِ خدمت ہے۔​
قبول کیجے۔ :)
 
کوئی ایڈمن سر، بھیا جانی سعود ، سر خلیل الرحمن ، بھیا محمد احمد، بھیا خرم شہزاد، بھیا بلال اعظم یا مزمل بھیا بتائیں گے کہ کیا اس کی اجازت ہے کہ میں مشاعرے کے لئے لکھی اپنی یہ نئی غزلیں معمول کے مطابق پابند بحور شاعری کے سیکشن میں بھی پوسٹ کر سکتی ہوں ؟
 
تمام دوستوں اور پیارے بھائیوں کی بیحدمشکور ہوں جنہوں نے میری ان تک بندیوں کو پسند کر حوصلہ افزائی فرمائی۔ دعا گو ہوں کہ اللہ سوہنا آپ کی تمام میٹھی مرادیں پوری کرے اور زندگی میں تمام آسودگیاں میسر ہوں ۔سدا سلامت رہیں
 
Top