کہاں آنسوؤں کی یہ سوغات ہو گی

راجہ صاحب

محفلین
کہاں آنسوؤں کی یہ سوغات ہو گی
نئے لوگ ہوں گے نئی بات ہو گی

میں ہر حال میں مسکراتا رہوں گا
تمہاری محبت اگر ساتھ ہو گی

چراغوں کو آنکھوں میں محفوظ رکھنا
بڑی دور تک رات ہی رات ہو گی

پریشاں ہو تم بھی، پریشان ہوں میں بھی
چلو میکدے میں، وہیں بات ہو گی

چراغوں کی لو سے ستاروں کی ضو تک
تمہیں میں ملوں گا جہاں رات ہو گی

جہاں وادیوں میں نئے پھول آئے
ہماری تمہاری ملاقات ہو گی

صداؤں کو الفاظ ملنے نہ پائیں
نہ بادل گھریں گے نہ برسات ہو گی

مسافر ہیں ہم بھی، مسافر ہو تم بھی
کسی موڑ پر پھر ملاقات ہو گی
 

راجہ صاحب

محفلین
کبھی یوں ملیں کوئی مصلحت کوئی خوف دل میں ذرا نہ ہو
مجھے اپنی کوئی خبر نہ ہو، تجھے اپنا کوئی پتا نہ ہو

کبھی دھوپ دے کبھی بدلیاں دل و جاں سے دونوں قبول ہیں
مگر اس محل میں نہ قید کر جہاں زندگی کی ہوا نہ ہو

وہ ہزار باغوں کا باغ ہو تیری برکتوں کی بہار سے
جہاں کوئی شاخ ہری نہ ہو جہاں کوئی پھول کھلا نہ ہو

ترے اختیار میں کیا نہیں مجھے اس طرح سے نواز دے
یوں دعائیں میری قبول ہوں مرے لب پہ کوئی دعا نہ ہو

کبھی ہم بھی اس کے قریب تھے دل و جاں سے بڑھ کے عزیز تھے
مگر آج ایسے ملا ہے وہ کبھی پہلے جیسے ملا نہ ہو
 

راجہ صاحب

محفلین
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی

شب ہجر تک کو یہ تشویش ہے
مسافر نے جانے کہاں رات کی

مقدر مری چشم پر آب کے
برستی ہوئی رات برسات کی

اجالوں کی پریاں نہانے لگیں
ندی گنگنائی خیالات کی

میں چپ تھا تو چلتی ہوا رک گئی
زباں سب سمجھتے ہیں جذبات کی

کئی سال سے کچھ خبر ہی نہیں
کہاں دن گزرا کہاں رات کی
 

محمداحمد

لائبریرین
کہاں آنسوؤں کی یہ سوغات ہو گی
نئے لوگ ہوں گے نئی بات ہو گی

میں ہر حال میں مسکراتا رہوں گا
تمہاری محبت اگر ساتھ ہو گی

بشیر بدر کی تین خوبصورت غزلیں۔

کیا بات ہے۔

راجہ صاحب تو اب آتے نہیں ہیں۔
 
Top