اردو محفل کا مشاعرہ برائے ۲۰۱۲ء ( تبصرہ جات کی لڑی)

محمداحمد

لائبریرین
خِراماں خِراماں چلا جا رہا ہوں​
کہ الفت کی راہوں سے ناآشنا ہوں​
مِری خاک بننے کو یہ مر مٹے ہیں​
فلک کے کواکب کی میں ارتقا ہوں
یہ صحرا کا بستر، وہ چھت آسماں کی​
فلک کی نوازش کا پیکر بنا ہوں​
میں نکلا تھا سورج کی منزل کو پانے
پہ اس کی چمک میں مگن ہو گیا ہوں
عصا، آبلے اور پوشاکِ خستہ
یہ ساماں ہے باقی، پہ میں چل رہا ہوں
تِرے دل کے تاروں کو پھر میں نے چھیڑا​
میں یادِ گزشتہ کی بھٹکی صدا ہوں​
میں تب تھا میں اب ہوں، یہاں بھی وہاں بھی​
خرد کے قفس سے تو میں ماورا ہوں

بہت خوب ذیشان بھیا ۔۔۔۔! آپ کی غزل لاجواب ہے۔

خوش رہیے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ترا در چھوڑ دیتا ہوں، مگر اتنی دعا کرنا
مرا احساس مر جاٴے، یا میں پتھر کا ہو جاوں
میں چاہوں بھی کبھی تو اس جہاں کا ہو نہیں سکتا​
فقط اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے گھر کا ہو جاوں​
مجھے رغبت ذرا سی بھی نہیں ہے، مے سے، ساقی سے​
پیوں اک جام غم یا مستقل ساغر کا ہو جاوں؟​
زمیں سے جب اُٹھا ہی لی محبت آسمانوں پر
مجھے بھی اذن ہو جائے، کہ میں امبر کا ہو جاوں
یقیناً ترک کردوں گا میں یوں آشفتہ سر پھرنا​
مگر یہ تب ہی ممکن ہے کہ میں اظہر کا ہوجاؤں​

بہت خوب اظہر صاحب۔

اچھے اشعار پیش کیے ہیں آپ نے۔ ہماری داد حاضرِ خدمت ہے۔
 
ندیم صاحب آپ کی داد تو ہمارے گلے میں قرض بن کر رہ گئی ہے۔۔۔۔ سوچتے ہیں کیسے چکائیں۔۔۔۔ کہ جتنی داد دیں کم ہے۔۔۔
واہ بھئی کمال کردیا آپ نے خصوصا گیت تو نرالا ہی تھا۔۔۔
 

ندیم حفی

محفلین
بہت شکریہ جناب مہدی نقوی حجاز صاحب ۔۔۔۔ اجی بندہ پرور کیوں گنہگار کرتے ہیں آپ پہلے ہی کلام سے زیادہ داد دے چکے۔۔۔نوازش
 

ندیم حفی

محفلین
اگر آپ کو واقعی گیت اتنا پسند آیا ( یعنی فقط دل رکھنے کے لیے نہیں کہ رہے ) تو ایک اور کوشش کروں گا اسے اپنی آواز میں آپ کے لیے پیش کر سکوں۔۔۔کسی زمانے میں اتنا فارغ وقت ہوتا تھا کہ اس گیت کی دُھن بھی ترتیب دی تھی ( یہ اس لیے پہلے بتایا کہ آپ اپنی سماعت کے حفاظتی اقدامات کر لیں)۔
 

ندیم حفی

محفلین
بہت بہت شکریہ خرم بھائی۔ ایک غزل پیشِ خدمت ہے:

میں اب زخم اپنے دکھانے لگا ہوں
جو گزری ہے دل پر، سنانے لگا ہوں

محبت پہ نفرت کی بنیاد رکھ کر
میں مکتوبِ الفت جلانے لگا ہوں

کبھی تو بھی تربت پہ آکر یہ دیکھے
ترے ہجر میں جاں سے جانے لگا ہوں

عجب زخم الفت نے مجھ کو دیے ہیں
میں زخموں پہ مرہم لگانے لگا ہوں

کنارا کشی کر مری ذات سے تُو
میں خود ہی سے خود کو چھپانے لگا ہوں

مقدر ہے میرا فنا ہونا تجھ پر
میں اک رسمِ دنیا نبھانے لگا ہوں

بہت اعلیٰ جناب۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ہاتھوں سے سنوارا ہے اپنے اس قفس کی ساری اینٹوں کو
ہمیں جہاں سنبھلنا ہوتا ہے اک نئی خطا ہو جاتی ہے

وہ شخص کہ جس کی آنکھوں میں اک عجب سی الجھن رہتی ہے
جو بات بھی اس کی نسبت ہو وہ حرفِ ثنا ء ہو جاتی ہے


واہ جناب بہت خوب
ڈھیر ساری داد قبول کریں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اور ایک چھوٹا سا گیت جو کسی بھولی بسری یاد کی طرح آج پھر سے دل میں جاگزیں ہو گیا۔۔۔

ہوں سُونے جب میری سوچ کے در
اُس رات کی بات نہ چھیڑا کر
کچھ قطرہ قطرہ ٹپکی ہے کچھ لمحہ لمحہ مہکی ہی
چُنری جب سر سے سَرکی ہے تب رات زمیں پر اُتری ہی
ہوں سُونے جب میری سوچ کے در
اُس رات کی بات نہ چھیڑا کر
جب لہریں شور مچاتی ہوں جب لوٹ کے چڑیاں آتی ہوں
جب سکھیاں بن میں گاتی ہوں بات اُس کی گیت میں لاتی ہوں
ہوں سُونے جب میری سوچ کے در
اُس رات کی بات نہ چھیڑا کر
وہ جس کے گال پہ تارا تھا وہ موہن یار ہمارا تھا
سَر بستہ راز وہ سارا تھا گِرداب تھا کبھی کنارا تھا
ہوں سُونے جب میری سوچ کے در
اُس رات کی بات نہ چھیڑا کر
جگ لاکھوں ناز اُٹھائے گا من پھر بھی چین نہ پائے گا
اِک ہُو کا عالم چھائے گا وہ پیارا یاد جب آئے گا
ہوں سُونے جب میری سوچ کے در
اُس رات کی بات نہ چھیڑا کر
جب ساون رُت میں پون چلے جب سرووثمن ملتے ہوں گلی
اگنی بن کر جب بدن جلے جب بلا نہ کوئی سر سے ٹلی
ہوں سُونے جب میری سوچ کے در
اُس رات کی بات نہ چھیڑا کر
جب صورت یاد کوئی آتی ہو کونپل کوئی جب مسکاتی ہو
رین اپنی چھب دکھلاتی ہو مٹھی میں جان جب آتی ہو
ہوں سُونے جب میری سوچ کے در
اُس رات کی بات نہ چھیڑا کر

کیا گیت ہے جناب
مزہ آ گیا
داد دینے کو الفاظ نہیں ہیں
اب کیا کہیں
 
Top