میرے پسندیدہ اشعار

راجہ صاحب

محفلین
ایک خوبصورت سی نظم اہل ذوق کے نام

چلو پھر شرط لگ جائے
میں ثابت آج کر دونگی
کہ تم نے دل لگی کی ہے
محبت نام کی کی ہے

سن کر اسکی باتوں کو
میں بولا، سادا دل لڑکی
اگر میں دل لگی کرتا
تو جینے سے نہ یوں ڈرتا
محبت نام کی کرتا
وفائیں عام سی کرتا

مگر پھر بھی
تیری تسکین کی خاطر
یہ کہتا ہوں

ہاں، میں نے دل لگی کی تھی
تجھے اپنا ہی سمجھا تھا
تجھے دل سے لگایا تھا
جہاں کوئی نا غم پہنچے
وہاں تجھ کو چھپایا تھا

مگر جاناں!
یقیں جانو
تمھارے حوصلے کی داد دیتا ہوں
کہ کتنی بے رخی سے تم نے کہہ ڈالا

چلو پھر شرط لگ جائے
کہ تم نے دل لگی کی ہے !!!
 

عمر سیف

محفلین
موسم تھا بےقرار،تمہیں سوچتے رہے
کل رات بار بار تمہیں سوچتے رہے
بارش ہوئی تو گھر کے دریچے سے ہم
چپ چاپ سوگوار تمہیں سوچتے رہے
 

عمر سیف

محفلین
او میرے مصروف خدا
اپنی دنیا دیکھ ذرا
اتنی خلوت کے ہوتے
شہروں میں ہے سناٹا
جھونپڑی والوں کی تقدیر
بجھا بجھا سا ایک دیا
خاک اڑاتے ہیں دن رات
میلوں پھیل گئے صحرا
زاغ و زغن کی چیخوں سے
سونا جنگل گونج اٹھا
سورج سر پر آ پہنچا
گرمی ہے یا روزِ جزا
پیاسی دھرتی جلتی ہے
سوکھ گئے بہتے دریا
فصلیں جل کر راکھ ہوئیں
نگری نگری کال پڑا
او میرے مصروف خدا
اپنی دنیا دیکھ ذرا
 

عمر سیف

محفلین
دُور ہی دُور رہی بس مجھ سے
پاس وہ میرے آ نہ سکی تھی
لیکن اُس کو چاہ تھی میری
وہ یہ بھید چُھپا نہ سکی تھی

اب وہ کہاں ہے اور کیسی ہے
یہ تو کوئی بتا نہ سکےگا
پر کوئی اُس کی نظروں کو
میرے دل سے مِٹا نہ سکے گا

اب وہ خواب میں دُلہن بن کر
میرے پاس چلی آتی ہے
میں اُس کو تکتا رہتا ہوں
لیکن وہ روتی جاتی ہے

منیر نیازی
 

عمر سیف

محفلین
اک سنگ تراش جس نے برسوں
ہيروں کي طرح صنم تراشے
آج اپنے صنم کدے ميں تنہا
مجبور نڈھال زخم خوردہ
دن رات پڑا کراہتا ہے
چہرے اجاڑ زندگي
لمحات کي ان گنت خراشيں
آنکھوں کے شکتہ مرکدوں ميں
روٹھي ہوئي حسرتوں کي لاشيں
سانسوں کي تھکن بدن کي ٹھنڈک
احساس سے کب تلک لہو لے
ہاتھوں ميں کہا سکت کہ بڑھ کر
خود ساختہ پيکروں کے جھولے
يہ زخم طلب يہ نامرادي
ہر بت کے لبوں پہ ہے تبسم
اے تيشہ بد ست ديوتائو
انسان جواب چاہتا ہے

احمد فراز
 

عمر سیف

محفلین
ماں کے نام
یہ کامیابیاں عزت یہ نام تم سے ہے​
خُدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے​
تمھارے دَم سے ہیں مرے لہو میں کھلتے گُلاب​
مَرے وجود کا سارا نطام تم سے ہے​
کہاں بساطِ جہاں اور میں کمسِن و ناداں​
یہ میری جیت کا سب اہتمام تم سے ہے​
جہاں جہاں ہے مری دشمنی سبب میں ہوں​
جہاں جہاں ہے مرا احترام تم سے ہے​
وصیؔ شاہ
 

راجہ صاحب

محفلین
میں نے پوچھا کیسے ہو ؟
بدلے ہو یا ویسے ہو ؟

روپ وہی انداز وہی
یا پھر اس میں کوئی کمی ؟

ہجر کا کوئی احساس تو ہو گا
کوئی تمھارے پاس تو ہو گا ؟

میں بچھڑا یہ مجبوری تھی
کب منظور مجھے دوری تھی

ساتھ ہمارا کب چُھوٹا ہے
روح کا رشتہ کب ٹوٹا ہے

آنکھ سے جو آنسو بہتے ہیں
تم کو خبر ہے کیا کہتے ہیں ؟

میں نے کہا آواز تمھاری
آج بھی ہے ہمراز ہماری

پھول وفا کے کِھل جائیں گے
اک دن ہم پھر مل جائیں گے
نامعلوم
 

عمر سیف

محفلین
دِل کے جذبات کون سمجھے گا
میرے حالات کون سمجھے گا

جو رُلاتے ہیں خون کے آنسو
ایسے نغمات کون سمجھے گا

غور کرو روشنی کے شیدائی
بحرِ ظلمات کون سمجھے گا

اب تو خلش لوٹ جا تو بھی
ڈھل گئی رات کون سمجھے گا
 

عمر سیف

محفلین
"اِک تازہ حکایت ہے"
اِک شخص کو دیکھا تھا
تاروں کی طرح ہم نے
اِک شخص کو چاہا تھا
اپنوں کی طرح ہم نے
وہ شخص قیامت تھا
کیا اُس کی کریں باتیں
کب ملتا کِسی سے تھا
ہم سے تھیں ملاقاتیں
آنکھیں تھیں کہ جادو تھا
پلکیں تھیں کہ تلواریں
دشمن بھی اگر دیکھے
سو جان سے دل ہارے
کچھ تم سے وہ ملتا تھا
ہاں ! تم سا ہی لگتا تھا
وہ شخص ہمیں اِک دن
اپنوں کی طرح بھولا
تاروں کی طرح ڈوبا
پھر ہاتھ نہ آیا وہ
ہم نے تو بہت ڈھونڈا
تم کس لیے چونکے ہو ؟؟
کب ذکر تمھارا ہے ؟
کب تم سے تقاضہ ہے ؟
کب تم سے شکایت ہے ؟
اِک تازہ حکایت ہے
سُن لو تو عنایت ہے​
 
سوتے ہیں‌ وہ آیئنہ لے کر خوابوں‌ میں‌ بال بناتے ہیں
سادہ سے پرندے کی خاطر کیا ریشمی جال بناتے ہیں

"غلام محمد قاصر"
 
تریاق
-------------

جب تیری اُداس انکھڑیوں میں
پل بھر کو چمک اُٹھے تھے آنسو
...
کیا کیا نہ بزر گئی تھی دل پر
جب میرے لیے ملول تھی تُو

کہنے کو وہ زندگی کا لمحہ
پیمانِ وفا سے کم نہیں تھا
ماضی کی طویل تلخیوں کا
جیسے مجھے کوئی غم نہیں تھا
تُو ! میرے لئے اُداس اتنی
کیا تھا یہ اگر کرم نہیں تھا

تو آج بھی میرے سامنے ہے
آنکھوں میں اداسیاں نہ آنسو
اِک طنز ہے تیری ہر ادا میں
چبھتی ہے ترے بدن کی خوشبو
یا اب میرے زخم بھر چُکے ہیں
یا سب میرا زہر پی چُکی تُو

احمد فراز
 

عمر سیف

محفلین
اس بت کدے میں تو جو حسیں تر لگا مجھے
اپنے ہی اک خیال کا پیکر لگا مجھے

جب تک رہی جگر میں لہو کی ذرا سی بوند
مٹھی میں اپنی بند سمندر لگا مجھے

مرجھا گیا جو دل میں اجالے کا سُرخ پھول
تاروں بھرا یہ کھیت بھی بنجر لگا مجھے

اب یہ بتا کہ روح کے شعلے کا کیا ہے رنگ
مَرمَر کا یہ لباس تو سندر لگا مجھے

کیا جانیے کہ اتنی اداسی تھی رات کیوں
مہتاب اپنی قبر کا پتھّر لگا مجھے

آنکھوں کو بند کر کے بڑی روشنی ملی
مدھّم تھا جو بھی نقش، اُجاگر لگا مجھے

یہ کیا کہ دل کے دیپ کی لَو ہی تراش لی
سورج اگر ہے، کرنوں کی جھالر لگا مجھے

صدیوں میں طے ہوا تھا بیاباں کا راستہ
گلشن کو لَوٹتے ہوئے پل بھر لگا مجھے

میں نے اسے شریکِ سفر کر لیا شکیب
اپنی طرح سے چاند جو بے گھر لگا مجھے​
 

غ۔ن۔غ

محفلین
جون ایلیا کی ایک یادگار غزل سے میری پسند کے اشعار

تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو
جو ملے خواب میں وہ دولت ہو

میں تمھارے ہی دم سے زندہ ہوں
مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو

کس طرح چھوڑ دوں تمھیں جاناں
تم میری زندگی کی عادت ہو

کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوبصورت ہو

داستاں ختم ہونے والی ہے
تم میری آخری محبت ہو
 

کاشفین

محفلین
عمر گریزاں کے نام

عمر یوں مجھ سے گریزاں ہے کہ ہر گام پہ میں
اس کے دامن سے لپٹتا ہوں مناتا ہوں اسے
واسطہ دیتا ہوں محرومی و ناکامی کا
داستاں آبلہ پائی کی سناتا ہوں اسے
خواب ادھورے ہیں جو دُہراتا ہوں ان خوابوں کو
زخم پنہاں ہیں جو وہ زخم دکھاتا ہوں اسے
اس سے کہتا ہوں تمنّا کے لب و لہجے میں
اے مری جان مری لیلیِ تابندہ جبیں
سنتا ہوں تو ہے پری پیکر و فرخندہ جمال
سنتا ہوں تو ہے مہ و مہر سے بھی بڑھ کے حسیں
یوں نہ ہو مجھ سے گریزاں کہ ابھی تک میں نے
جاننا تجھ کو کجا پاس سے دیکھا بھی نہیں
صبح اُٹھ جاتا ہوں جب مرغ اذاں دیتے ہیں
اور روٹی کے تعاقب میں نکل جاتا ہوں
شام کو ڈھور پلٹتے ہیں چراگاہوں سے جب
شب گزاری کے لیے میں بھی پلٹ آتا ہوں
یوں نہ ہو مجھ سے گریزاں مرا سرمایہ ابھی
خواب ہی خواب ہیں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ملتوی کرتا رہا کل پہ تری دید کو میں
اور کرتا رہا اپنے لیے ہموار زمیں
آج لیتا ہوں جواں سوختہ راتوں کا حساب
جن کو چھوڑ آیا ہوں ماضی کے دھندلکے میں کہیں
صرف نقصان نظر آتا ہے اس سودے میں
قطرہ قطرہ جو کریں جمع تو دریا بن جائے
ذرّہ ذرّہ جو بہم کرتا تو صحرا ہوتا
اپنی نادانی سے انجام سے غافل ہو کر
میں نے دن رات کیے جمع خسارہ بیٹھا
جاننا تجھ کو کجا پاس سے دیکھا بھی نہیں
اے مری جان مری لیلیِ تابندہ جبیں
یوں نہ ہو مجھ سے گریزاں مرا سرمایہ ابھی
خواب ہی خواب ہیں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں!

اخترالایمان
 

وسیبی

محفلین
لفظوں سے چھاؤں وضع کی سطروں کو سائباں کیا
جیسے بھی ہو سکا، بسر وقتِ زوالِ جاں کیا
دل کو کسی کا سامنا کرنے کی تاب ہی نہ تھی
اچھا کیا کہ آنکھ نے آنسو کو درمیاں کیا
جتنا میں اپنے پاس تھا، اُتنا میں اپنے پاس ہوں
باقی کا اس سے پوچھیے، اس نے مجھے کہاں کیا
جس پہ خفا ہوئے ہو تم،تم نے سجھائی تھی وہ بات
میرا بس اتنا دوش ہے، میں نے اس سے بیاں کیا

عباس تابش
 
کس کا جمال ناز ہے جلوہ نما یہ سو بسو
گوشہ بگوشہ دربدر قریہ بہ قریہ کو بہ کو
اشک فشاں ہے کس لئے دیدہ منتظر میرا
دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم چشمہ بہ چشمہ جو بجو
میری نگاہ شوق میں حسن ازل ہے بے حجاب
غنچہ بہ غنچہ گل بہ گل لالہ بہ لالہ بو بہ بو
جلوہ عارض نبی رشک جمال یوسفی
سینہ بہ سینہ سر بہ سر چہرہ بہ چہرہ ہو بہ ہو
زلف دراز مصطفی گیسوئے لیل حق نما
طرہ بہ طرہ خم بہ خم حلقہ بہ حلقہ مو بہ مو
یہ میرا اضطراب شوق رشک جنون قیس ہے
جذبہ بہ جذبہ دل بہ دل شیوہ بہ شیوہ خو بہ خو
تیرا تصور جمال میرا شریک حال ہے
نالہ بہ نالہ غم بہ غم نعرہ بہ نعرہ ہو بہ ہو
بزم جہاں میں یاد ہے آج بھی ہر طرف تیری
قصہ بہ قصہ لب بہ لب خطبہ بہ خطبہ رو بہ رو
کاش ہو ان کا سامنا عین حریم ناز میں
چہرہ بہ چہرہ رخ بہ رخ دیدہ بہ دیدہ دو بہ دو
عالم شوق میں رئیس کس کی مجھے تلاش ہے
خطہ بہ خطہ راہ بہ راہ جادہ بہ جادہ سو بہ سو

رئیس امروہی
 
Top