اے کاش مرے پاؤں میں کانٹے ہی اُگ رہیں

ش زاد

محفلین
پردہ اُٹھا کے حُسنِ ازل آئے تو بنے

جو دیکھتا ہے مُجھ کو بھی دکھلائے تو بنے



خورشیدِ جان آج نرالا ہی کچھ کرے

تاروں کے بیچ گھوم کے کھوجائے تو بنے



جب بھی پلٹ کے دیکھا ہے پتھرا گیا ہوں میں

اس بار آپ سامری پتھرائے تو بنے



اے کاش مرے پاؤں میں کانٹے ہی اُگ رہیں

یہ دشت ایک آبلہ بن جائے تو بنے



بہلایا جاتا تھا مُجھے بچپن میں چاند سے

اب مُجھ سے کوئی چاند کو بہلائے تو بنے



تو دیکھ دیکھ آئینہ اترائی ہے بہت

پر اب یہ تجھ کو دیکھ کے اترائے تو بنے



ش زاد​
 
Top