آموزگار فارسی

فاتح

لائبریرین
اسباقِ فارسی یہاں محض اصل کتاب ہے ضمیمے کے بغیر، جو ورڈ جدول کے بغیر سمجھنا مشکل ہے۔ مکمل کتاب یہاں ہے:
http://kitaben.ifastnet.com/Pages/Asbaq.html

شکریہ جناب! میں نے ورڈ فائل بھی ڈاؤن لوڈ کر لی ہے اور پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

اعجاز صاحب! میرے خیال میں اسے اردو لائبریری کی بھی زینت بننا چاہیے۔
 
ظہور صاحب!
نیکی اور پوچھ پوچھ! علم کا خزانہ چھپا کر کیوں رکھا ہوا ہے حضور۔ اس سے ہمیں بھی مستفیض ہونے کا موقع دیجیے۔
اس موقع پر شاہ سائیں کا ایک شعر یاد آ گیا:
سے لنڈیوں لکھ لہن، جے ڈین ڈیہاڑے ڈیھ کھے
سے ستّیوں کجن کوھ، جے ساندھیو وتن سیل کھے

(معذرت خواہ ہوں کہ مجھے کی بورڈ کے ذریعہ سندھی لکھنی نہیں آتی)
جناب عالی
آج سے فارسی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
فارسی فہمی کے حوالے سے اقبال اکادمی، لاہور نے ایک کورس شروع کیا تھا "تدریسِ فارسی بذریعہ کلامِ اقبال"۔ اور اسکی کلاسز بھی شروع کی تھیں لاہور میں۔ اس کورس کی کتب تین حصوں میں نیچے دیئے گئے روابط سے ملاحظہ فرمائیں۔ یہ کتب استاد اور شاگرد اور کورس کے حوالے سے لکھی گئی ہیں اسلیے اتنی مفصل نہیں ہیں لیکن فارسی سے واقفیت رکھنے والے احباب کیلیے سود مند ثابت ہو سکتی ہیں۔

حصہ اول
حصہ دوم
حصہ سوم


مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں علامہ پر کلاسیکی فارسی شعراء کے اثرات، امثال اور تقابلی کلام کے ذریعے واضح کیے گئے ہیں۔


۔
 
فارسی زبان کا قاعدہ
وقت جو موجود ہے وہ حال ہے​
گزرا ماضی ، آتا استقبال ہے​
فعل اپنا نام وہ پا جائے گا​
اس کے اندر جو زمانہ آئے گا​
جمع جس میں حال و استقبال ہو​
وہ مضارع ہوتا ہے اے نیک خو​
امر کیا ہے؟ چاہنا اک کام کا​
منع کرنا نہی ہے اے باصفا​
جو کرے اک کام فاعل اس کو جان​
فعل واقع جس پہ ہو مفعول مان​
کلمہ سے کلمہ جو پیدا تم کرو​
اشتقاق اُس کا ہے نام اے نیک خو​
صیغے نکلیں جس سے مصدر اس کو جان​
اس کے آخر دَن ہو یا تَن اے جوان​
نون کو جب دور مصدر سے کیا​
ماضی مطلق کا صیغہ بن گیا​
ماضی مطلق پہ جب آتا ہے است​
بنی ہے ماضی قریب اے حق پرست​
بود جب ماضی پہ آیا اے سعید​
یاد رکھ وہ بن گئی ماضی بعید​
آئے جب ماضی پہ باشد اے ہمام​
احتمالی اور شکیہ ہو نام​
مل کے مے اول ہو ماضی ناتمام​
جو ہے استمراری نزد خاص و عام​
ماضی کے آخر میں ے آئے اگر​
ہو تمنائی بلا خوف و خطر​
یاد رکھ ان دونوں ماضی کا اثر​
ہوویں مستعمل بجائے یک دگر​
ہے یہ مستقبل بنانے کا طریق​
ماضی پہ خواہد لگا دے اے رفیق​
پر مضارع کا نہیں اے باوفا​
کوئی مستحکم قیاسی قاعدہ​
ہاں پتہ آخر کا ہے یہ یاد کر​
دال ساکن اُس کے اول ہو زبر​
گر بنانا حال چاہے اے اخی​
مے مضارع پر لگا دے یاہمی​
امر حاضر کا سنو اب قاعدہ​
حرف آخر دو مضارع سے گرا​
ب بھی آ جاتی ہے زائد مر پر​
بر ببر ، بشکن شکن ، بگذر گذر​
بے کے بدلے امر پر گر میم آئے​
نہی بن جتی ہے سن اے نیک رائے​
اسم فاعل کا بنانا ہو اگر​
امر پر لفظ ندہ ایزاد کر​
ہوئے ہوز ماضی مطلق پہ لا​
اسم مفعول اس طرح بن جائے گا​
ان ضروری قاعدوں کو یاد کر​
اور خدا کی یاد سے دل شاد کر​
(’’فارسی زبان کا آسان قاعدہ‘‘ سے ماخوذ) تالیف مولانا مشتاق احمد چرتھاولی​
 
Top