اردو قواعد - دونوں کے دونوں

m.mushrraf

محفلین
امید کے کہ آپ سب بخیریت تمام ہونگےِ

مبتد دو اسم ہو اور اس کی تاکید "دونوں کے دونوں" سے لائی جائے تو فعل جمع کی جمع کی صورت میں آتا ہے جیسے "بھائی اور ان کی اہلیہ دونوں کے دونوں آئے تھے۔"
میرا سوال یہاں اس کی جنس کے بارے میں ہے۔ کیا لفظ "دونوں کے دونوں" کے آنے کی صورت میں فعل ہمیشہ مذکر ہو گا۔ خواہ دونوں اسم مونث ہوں جیسے "بڑی بیٹی اور چھوٹی بیٹی دونوں کے دونوں آئے تھے" کیا یہ ٹھیک ہے یا "دوںوں کی دونوں آئی تھیں" کہیں گے۔
یہی سوال محض "دونوں" کے بارے میں ہے جبکہ وہ تاکید کے لئے آئے۔ جیسے "بھائی اور بہن دونوں آئے تھے" اور "بڑی بیٹی اور چھوٹی بیٹی دونوں آئے"۔

مولوی صاحب نے "قواعد اردو" میں "دونوں" اور "دونوں کے دونوں" کی جنس کے حوالہ سے کوئی وضاحت نہیں کی۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
"لیکن جب دو اسم ہوں اور آخر میں لفظ دونوں یا دونوں کے دونوں آئیں تو فعل جمع آئے گا جیسے، ماں اور بچہ دونوں مر گئے یا دونوں کے دونوں مر گئے"

نوٹ: کیا انٹرنٹ پہ جامع القواعد حصہ صرف اور جامع القواعد حصہ نحو دونوں یا کوئی ایک موجود ہے۔ میں اسلام آباد میں رہائش پذیر ہوں اور یہاں کسی جگہ سے اس کی دستیابی نہ ہو سکی۔ اگر کسی کے علم میں پنڈی یا اسلام آباد کی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں سے یہ مل جائیں تو اس کی عین نوازش ہو گی۔
 

m.mushrraf

محفلین
امید کے کہ آپ سب بخیریت تمام ہونگےِ

مبتد دو اسم ہو اور اس کی تاکید "دونوں کے دونوں" سے لائی جائے تو فعل جمع کی صورت میں آتا ہے جیسے "بھائی اور ان کی اہلیہ دونوں کے دونوں آئے تھے۔"
میرا سوال یہاں اس کی جنس کے بارے میں ہے۔ کیا لفظ "دونوں کے دونوں" کے آنے کی صورت میں فعل ہمیشہ مذکر ہو گا۔ خواہ دونوں اسم مونث ہوں جیسے "بڑی بیٹی اور چھوٹی بیٹی دونوں کے دونوں آئے تھے" کیا یہ ٹھیک ہے یا "دوںوں کی دونوں آئی تھیں" کہیں گے۔
یہی سوال محض "دونوں" کے بارے میں ہے جبکہ وہ تاکید کے لئے آئے۔ جیسے "بھائی اور بہن دونوں آئے تھے" اور "بڑی بیٹی اور چھوٹی بیٹی دونوں آئے"۔

مولوی صاحب نے "قواعد اردو" میں "دونوں" اور "دونوں کے دونوں" کی جنس کے حوالہ سے کوئی وضاحت نہیں کی۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
"لیکن جب دو اسم ہوں اور آخر میں لفظ دونوں یا دونوں کے دونوں آئیں تو فعل جمع آئے گا جیسے، ماں اور بچہ دونوں مر گئے یا دونوں کے دونوں مر گئے"

نوٹ: کیا انٹرنٹ پہ جامع القواعد حصہ صرف اور جامع القواعد حصہ نحو دونوں یا کوئی ایک موجود ہے۔ میں اسلام آباد میں رہائش پذیر ہوں اور یہاں کسی جگہ سے اس کی دستیابی نہ ہو سکی۔ اگر کسی کے علم میں پنڈی یا اسلام آباد کی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں سے یہ مل جائیں تو اس کی عین نوازش ہو گی۔
 

m.mushrraf

محفلین
امید کے کہ آپ سب بخیریت تمام ہونگےِ

مبتد دو اسم ہو اور اس کی تاکید "دونوں کے دونوں" سے لائی جائے تو فعل جمع کی جمع کی صورت میں آتا ہے جیسے "بھائی اور ان کی اہلیہ دونوں کے دونوں آئے تھے۔
میرا سوال یہاں اس کی جنس کے بارے میں ہے۔ کیا لفظ "دونوں کے دونوں" کے آنے کی صورت میں فعل ہمیشہ مذکر ہو گا۔ خواہ دونوں اسم مونث ہوں جیسے "بڑی بیٹی اور چھوٹی بیٹی دونوں کے دونوں آئے تھے" کیا یہ ٹھیک ہے یا "دوںوں کی دونوں آئی تھیں" کہیں گے۔
یہی سوال محض "دونوں" کے بارے میں ہے جبکہ وہ تاکید کے لئے آئے۔ جیسے "بھائی اور بہن دونوں آئے تھے" اور "بڑی بیٹی اور چھوٹی بیٹی دونوں آئے"۔

مولوی صاحب نے "قواعد اردو" میں "دونوں" اور "دونوں کے دونوں" کی جنس کے حوالہ سے کوئی وضاحت نہیں کی۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
"لیکن جب دو اسم ہوں اور آخر میں لفظ دونوں یا دونوں کے دونوں آئیں تو فعل جمع آئے گا جیسے، ماں اور بچہ دونوں مر گئے یا دونوں کے دونوں مر گئے"(مطابقت کے باب میں)

نوٹ: کیا انٹرنٹ پہ جامع القواعد حصہ صرف اور جامع القواعد حصہ نحو دونوں یا کوئی ایک موجود ہے۔ میں اسلام آباد میں رہائش پذیر ہوں اور یہاں کسی جگہ سے اس کی دستیابی نہ ہو سکی۔ اگر کسی کے علم میں پنڈی یا اسلام آباد کی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں سے یہ مل جائیں تو اس کی عین نوازش ہو گی۔
 

فاتح

لائبریرین
قواعد کے اعتبار سے کوئی مستند رائے تو نہیں جانتا لیکن ہم اسے جس طرح گھروں میں استعمال کرتے ہیں وہ بتا دیتا ہوں:
باپ اور بیٹا دونوں (یا "دونوں کے دونوں") جا چکے ہیں۔
ماں اور بیٹا دونوں (یا "دونوں کے دونوں") جا چکے ہیں۔
ماں اور بیٹی دونوں (یا "دونوں کی دونوں") جا چکی ہیں۔ (اگر دونوں اسما مونث ہیں تو فعل مونث استعمال ہو گا)
باپ اور بیٹی دونوں (یا "دونوں کے دونوں") جا چکے ہیں۔
یا آپ کی دی ہوئی مثال کو لیا جائے تو
بھائی اور بہن دونوں آئے تھے۔
بڑی بیٹی اور چھوٹی بیٹی دونوں آئیں۔ (دونوں اسما مونث ہیں لہٰذا فعل بھی مونث)
 

m.mushrraf

محفلین
آپ سب حضرات کا بہت بہت شکریہ۔

"جامع القواعد حصہ صرف اور جامع القواعد حصہ نحو" کیا انٹرنٹ پہ موجود ہے؟
 

حماد

محفلین
"دونوں کے دونوں" کا استعمال کچھ عجیب معلوم ہو رہا ہے۔ کیا کوئ ساتھی دلیل کے طور پر کلاسیکی ادب سے نثر کا ٹکڑا بطور ثبوت پیش کر سکتا ہے۔؟
میری ناقص رائے میں "تاکید" کیلئے "ہی" کا اضافہ شاید مناسب ہو۔
"باپ اور بیٹا دونوں ہی جا چکے ہیں۔
 

m.mushrraf

محفلین
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بھائی حماد امید ہے کہ آپ بخیریت تمام ہوں۔
مولوی عبد الحق صاحب نے "دونوں کے دونوں" کا تذکرہ اپنی کتاب میں کیا ہے اور اسے برقرار رکھا ہے۔ اوپر میں نے اس کا ایک اقتباس دیا ہے۔

نیز اردو میں تکرار لفظ کے ساتھ مختلف معانی حاصل ہوتے ہیں جس میں ایک شمولیت کا معنی ہے یعنی "ہر ایک" کے معنی میں۔ اور بعض اوقات حرف اضافت بھی بڑھا دیا جاتا ہے۔ جیسے "وہ برس کے برس آتا ہے" یعنی "ہر برس" (قواعد اردو میں یہ مثال موجود ہے)

اور بعض اوقات "کل" کے معنی کے لئے آتا ہے جیسے "آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے"

اسی طرح تاکید کا معنی بھی اس اسلوب سے حاصل ہوتا ہے جیسے: "اتنا پڑھا پر وہ بیل کا بیل رہا" اور "آدمی کیا دیو کا دیو ہے" (یہ تینوں باتیں قواعد اردو میں تکرار الفاظ کے تحت مذکور ہیں)

اب "دونوں کے دونوں" کی تخریج ان تینوں صورتوں میں سے کسی بھی صورت سے کی جا سکتی ہے چاہے اسے "ہر ایک" کے معنی میں لے جائیں یا تاکید کے لئے۔ البتہ "کل" کے معنی میں اسی لانے کی صورت شاید اتنی واضح نہ ہو اس کے بارے میں آپ لوگ اپنی رائے کا اظہار کریں۔

البتہ میں بھی وہی مطالبہ کرتا ہوں جو حماد بھائی نے کیا
 

دوست

محفلین
اعجاز صاحب کی اردو کتابوں سے ملنے والی مثالیں۔
---------------------------------------------------------------------------------
ہیں میرے۔ ایک میونخ میں ہے، دوسرا اٹلی میں، شوہر دونوں کے دونوں گلے سے اُتار پھینکے۔ ‘‘ زینت بے دلی سے رسماً مسکر
یر کے حلقے ہیں گول۔۔ شمشیر کے حلقے ہیں گول، نشاں دونوں کے دونوں ہیں۔۔ مکاں دونوں کے دونوں ہیں، زمیں کی ہڈیاں ۔۔ ح
ر کے حلقے ہیں گول، نشاں دونوں کے دونوں ہیں۔۔ مکاں دونوں کے دونوں ہیں، زمیں کی ہڈیاں ۔۔ حزیں کی ہڈیاں، پیہم بات چیت
ا ہوا تھا۔ اس کے سامنے پرانی چپل کے دو جوڑ تھے جو دونوں کے دونوں نہایت خستہ تھے۔ بوڑھا درخت کے نیچے پاؤں پھیلائے ا
یہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اور حضرت مسروق دونوں کے دونوں ایک روز عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت اقدس می
صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ میں سے ہیں اور دونوں کے دونوں نیک کام میں کوتاہی نہیں کرتے۔ لیکن ان میں سے ایک
نہ سے روایت ہے کہ میں اور حضرت مسروق رضی اللہ عنہ دونوں کے دونوں ایک دن عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر
صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ میں سے ہیں اور دونوں کے دونوں نیک کام میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کرتے۔ لیکن ا
میں اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں کے دونوں ایک کپڑا اوڑھ کر سو جاتے تھے اور میں اس وقت حالت
ے کہا بیٹھے ہی بیٹھے (واضح رہے کہ روح اور حجاج یہ دونوں کے دونوں اس حدیث شریف کے روایت کرنے والے ہیں۔) ٭٭ قتیبہ،
ضرت عبداللہ بن یسار جو کہ حضرت میمونہ کے غلام تھے دونوں کے دونوں حضرت ابو جہیم بن حارث کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہو
ا تم کو یہ واقعہ یاد نہیں ہے کہ جس وقت میں اور تم دونوں کے دونوں ایک ہی لشکر میں تھے۔ پھر ہم کو جنابت کی حالت لاحق
یینہ بن حصین نے کہا ہم اور قبیلہ بنو فرازہ کے لوگ دونوں کے دونوں اس بات کا اقرار نہیں کرتے اور حضرت عباس بن مرواس
تھیار اٹھائے اور دوسرا بھی ساتھ ہی ہاتھ اٹھائے تو دونوں کے دونوں دوزخ کے کنارے پر ہیں پھر جس وقت قتل کیا تو دوزخ م
ے (واضح رہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے کہ جس وقت وہ دونوں کے دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کی نیت سے ہتھیار اٹھائیں )
وغیرہ) لے کر ایک دوسرے کے برسر پیکار ہو جائیں تو دونوں کے دونوں دوزخ میں داخل ہوں گے کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ!
شم اور قبیلہ بنو مطلب کو ایک سمجھتا ہوں کیونکہ یہ دونوں کے دونوں الگ الگ نہیں ہوئے اور اسلام اور دور جاہلیت میں ای
لد) کو لے کر آئے ان کے سر کے بال اور ڈاڑھی کے بال دونوں کے دونوں ہی ایک طرح کے ہو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ
راہگیر :یار ہم بھی کن گونگے بہروں میں پھنس گئے۔ دونوں کے دونوں اشاروں میں بات کرتے ہیں۔ چلو کسی اور سے پوچھیں۔
----------------------------------------------------------------------------------------
 
Top